کتاب: مباحث توحید - صفحہ 179
بعد اس قسم کے سوال وجواب کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ ایک مغالطہ: بعض اہل بدعت اس موقع پر ایک اور مغالطہ پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ تو درست ہے کہ غیر اللہ کی عبادت جائز نہیں بلکہ شرک ہے۔ خواہ کسی پیغمبر کی عبادت ہو یا فرشتہ اور ولی کی۔ لیکن انبیاء اور اولیاء کو حاجات و مشکلات میں امداد کے لیے غائبانہ پکارنا شرک نہیں بلکہ جائز ہے اور قرآن مجید کی جن آیتوں میں غیر خدا کی دعا سے منع کیا گیا ہے وہاں دعا سے مراد عبادت ہے نہ کہ پکار اور ثبوت یہ پیش کرتے ہیں کہ مفسرین نے یَدْعُوْنَ کی تفسیر یَعْبُدُوْنَ سے، یَدْعُوْاکی یَعْبُدُسے اور اَدْعُوْاکی اَعْبُدُ سے کی ہے۔ جواب: غیر خدا کو غائبانہ مافوق الاسباب پکارنا شرک ہے اور اہل بدعت کا استدلال سراسر غلط ہے کیونکہ پہلے بالتفصیل بیان ہوچکا ہے کہ دعا اور پکار کی دو قسمیں ہیں ایک مافوق الاسباب اور دوم ماتحت الاسباب۔ پکار کی پہلی قسم عبادت ہے اور اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ اور دوسری قسم چونکہ عبادت نہیں اس لیے وہ غیر اللہ کے لیے بھی جائز ہے اور یہی وہ پکار ہے جس سے مغالطہ دیا جاتا ہے۔ باقی رہا مفسرین کا تَدٌعُوْنَکی تفسیرتَعْبُدُوْنَسے کرنا تو اس سے ان کا مقصد دعا کا حاصل معنی بیان کرنا ہے اور یہ مطلب ہے کہ غائبانہ مافوق الاسباب دعا بھی عبادت ہی کا فرد ہے(بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ دعا اور پکار عبادت کا سب سے اہم فرد ہے)اور جس طرح عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں اسی طرح یہ دعا اور پکار بھی اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں۔ شاہ ولی اللہ الفوز الکبیر میں فرماتے ہیں۔ " مفسرین حاصل معنی بطریق افہام بیان می کنند مردمانِ ناواقف گمان می کنند کہ لفظی معنی کردہ اند۔ دعا بمعنی مطلق خواندن کسے را منع نیست۔ مراد از خواندان کسے رادر غائبانہ حاجات است، لہٰذا مفسرین تفسیر بعبادت می کنند" شاہ صاحب کی عبارت سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کو پکارنا دو قسم ہے ایک غائبانہ حاجات میں یعنی مافوق الاسباب۔ مفسرین کرام یَدْعُوْنَ کی تفسیر یَعْبُدُوْنَ سے کر کے اس طرف اشارہ فرما رہے کہ مافوق الاسباب غائبانہ حاجات میں پکارنا عبادت ہے اس لیے اللہ کے ساتھ مخصوص ہے اور غیر اللہ کے لیے شرک ہے۔ پکار کی دوسری قسم ماتحت الاسباب ہے اور وہ غیر اللہ کے لیے جائز ہے جیسا کہ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِيْٓ اُخْرٰكُمْ(آل عمران:3/153)اور لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ میں ہے جیسا کہ تفصیل سے مذکور ہوچکا ہے۔ نیز تمام اہل لغت نے دعا کے معنی خواندان(پکارنا)سے کیے ہیں عبادت سے نہیں کیے اور مفسرین کا کام لغوی معنی بیان کرنا نہیں بلکہ ان کا کام تو مطلب اور تفسیر بیان کرنا ہے۔[1] عبادت واستعانت کا مفہوم ازمولانا سعیدی رحمہ اللہ: عبادت کے لغوی معنی: امام خلیل بن احمد الفراہیدی لکھتے ہیں:
[1] جواہر القرآن،1/ 8-11