کتاب: مباحث توحید - صفحہ 178
کے تحت امداد طلب کی اسی طرح ذوالقرنین نے بھی یاجوج ماجوج کو روکنے کے لیے دیوار بناتے وقت لوگوں سے جو کہا تھا۔ اَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ کہ تم لوگ قوت بازو یعنی کام سے میری مدد کرو یہ مدد بھی ظاہری اسباب کے تحت تھی۔ نہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)نے حواریوں کو غائبانہ پکارا اور نہ ان سے مافوق الاسباب مدد مانگی اور نہ ہی ذوالقرنین نے اپنی قوم سے ایسا کیا۔ جس طرح ظاہری اسباب کے تحت مددا مداد جائز ہے اسی طرح اسبابِ عادیہ کے تحت پکار بھی جائز ہے یعنی جو آدمی سامنے موجود ہو اسے پکار کر(یعنی اے فلاں کہہ کر)کوئی ایسا کام کرنے کا کہا جائے جو اسباب عادیہ کے تحت اس کی قدرت میں ہو مثلاً اسے کہا جائے کہ مجھے پانی پلا دو یا بازار سے سودا سلف لادو وغیرہ۔ قرآن مجید میں ہے۔ جنگ احد میں وقتی افراتفری کی بنا پر جب کچھ صحابہ کرام حضور(علیہ السلام)سے علیحدہ ہوگئے تو آپ نے ان کو واپس بلایا۔ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِيْٓ اُخْرٰكُمْ[1]اور رسول پیچھے سے تم کو بلا رہے تھے۔ حضور(علیہ السلام)کا یہ بلانا اور پکارنا اسباب ظاہری کے تحت تھا اور آواز ان کو دی جارہی تھی جو میدانِ احد میں آپ کی آواز سن رہے تھے۔ یہ پکار ماتحت الاساب ہے اور اس کے بغیر دنیا کا کاروبار ہی نہیں چل سکتا۔ ایک جگہ فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا[2] یعنی جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو نام سے اور بلند آواز سے پکارتے ہو اس طرح رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو نہ پکارا کرو، معلوم ہوا کہ جو استعانت، امداد باہمی اور پکار عادی اسباب کے تحت ہو وہ نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کے سوا دنیا کا کاروبار ہی نہیں چل سکتا اور اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں اس قسم کی استعانت کا حصر مقصود نہیں اور نہ ہی اس کی قرآن میں ممانعت ہے۔
استعانت کی دوسری قسم ہے مافوق الاسباب یعنی اسباب عادیہ کے بغیر کسی کو دور ونزدیک سے غائبانہ پکارا جائے اور اس سے استمداد کی جائے یہ پکار اور استعانت اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اللہ کے سوا کسی پیغمبر، فرشتہ یا ولی سے ہرگز جائز نہیں۔ تمام انسانوں بلکہ جانداروں کی مافوق الاسباب مدد اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ اس کی امداد میں قرب وبعد کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ اور یہ استمداد غیر خدا سے شرک ہے اور یہی وہ استمداد واستعانت ہے جس کا اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں حصر ہے۔ اس موقع پر تفسیروں میں ایک سوال وجواب مذکور ہے کہ انسان ایک دوسرے سے کئی امور میں مدد لیتا ہے۔ پانی مانگتا ہے۔ روٹی مانگتا ہے اور اس سے کئی ضرورت کی چیزیں طلب کرتا ہے تو پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کا حصر کس طرح صحیح ہوا اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ انسان ظاہری اسباب کے تحت ایک دوسرے سے جو امداد لیتا ہے۔ وہ ظاہری امداد بھی در اصل اللہ تعالیٰ ہی سے ہوتی ہے۔ کیونکہ مدد کرنے والے انسان کے جسم وجان کو خدا ہی نے پیدا فرمایا ہے۔ اسے ہاتھ پاؤں اسی نے دئیے اور ان میں حرکت بھی اسی نے پیدا فرمائی لیکن استعانت اور استمداد کی مذکورہ بالا دو قسمیں(ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب)بیان کرنے کے
[1] آل عمران 153:3
[2] النور 63:24