کتاب: مباحث توحید - صفحہ 177
کاروبار ایک منٹ بھی نہیں چل سکتا اور اس باہمی امداد کا ثبوت خود قرآن مجید میں بھی موجود ہے حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)نے جب یہودیوں کی شرارت بھانپ لی اور سمجھ لیا کہ وہ کفر پر اڑ گئے ہیں تو اعلان کیا: مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ[1]اللہ کی طرف میرے مددگار کون ہیں تو حواریوں نے جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے دین کے مددگار۔ اسی طرح حضرت ذوالقرنین نے بھی ایک قوم سے مدد کی درخواست کی تھی۔ سورۃ کہف:18/95 میں فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ۔ یعنی تم لوگ قوت بازو سے میری مدد کرو۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو امداد باہمی کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ رشاد ہے۔ وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى[2]اور نیکی اور خدا خوفی کے کاموں میں ایک د وسرے کی مدد کیا کرو۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ غیر خدا سے مدد مانگنا جائز ہے آج کل کے اہل بدعت اس قسم کی چیزیں پیش کر کے عوام کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو جی خدا نے ایک دوسرے سے مدد مانگنے کا حکم دیا ہے اور حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)نے بھی اپنے متبعین سے مدد مانگی تھی۔ لہذا اولیاء اللہ سے بھی مدد مانگنا جائز ہے۔
اس کا جواب: اہل بدعت کے قول سے معلوم ہوا العیاذ باللہ عوام الناس اولیاء اللہ اور انبیاء علیہم السلام کے حاجت روا اور مشکل کشا ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)نے اپنے حواریوں سے مدد مانگی اور ذوالقرنین نے اپنی قوم سے۔ یہ اہل بدعت بھی عجب کشمکش اور مخمصے میں مبتلا ہیں ایک طرف تو دعویٰ کرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام حاجت روا اور مشکل کشا ہیں اور دوسری طرف عوام الناس کو انبیاء اور اولیاء کا حاجت روا سمجھتے ہیں۔ معاذ اللہ ربی۔
یہ تو الزامی جواب تھا۔ اس کا تحقیقی جواب یہ ہے کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں جو استعانت اور استمداد اللہ کے ساتھ مختص کی گئی ہے وہ اور ہے اور جو استمداد واستعانت روز مرہ کی زندگی میں ہر آدمی دوسرے سے کرتا ہے یا جو انبیاء علیہم السلام نے اپنے متبعین سے کی وہ اور ہے۔ اس کی تفصیل حسب `یل ہے:۔
استعانت کی دو قسمیں: استعانت(مدد مانگنے)کی دو قسمیں ہیں۔
ایک استعانت ماتحت الاسباب یعنی ظاہری اسباب کے تحت کسی سے مدد مانگی جائے۔ یہ وہ امداد ہے جو تمام انسانوں کو روز مرہ کی زندگی میں ایک دوسرے سے حاصل ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)نے حواریوں سے جو مدد مانگی تھی وہ بھی ماتحت الاسباب تھی جب انہوں نے محسوس کیا کہ یہود ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو حواریوں سے فرمایا کہ کیا تم میں کوئی ہے جو اللہ کے دین کے لیے میری امداد کرے۔ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے دین کے مددگار۔ یہ سارا معاملہ ماتحت الاسباب تھا حواری حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کے پاس تھے۔ غائب نہیں تھے۔ انہوں نے بالمشافہ حواریوں سے اسباب عادیہ
[1] آل عمران 52:3
[2] المائدہ 2:5