کتاب: مباحث توحید - صفحہ 176
کرنا۔ خدا کے گھر کا طواف کرنا۔ حلف اٹھانا، قسم کھانا اور نذر ومنت دینا وغیرہ یہ امور ایسے ہیں کہ ہر حال میں اللہ ہی کے لیے کرنے جائز ہیں۔ غیر خدا کے لیے بالکل ناجائز ہیں۔ اگر یہ امور غیر خدا کے لیے مذکورہ بالا اعتقاد(غیبی تسلط اور مافوق الاسباب قدرت)کے ساتھ کیے جائیں تو صریح شرک ہیں اور اگر اس اعتقاد کے بغیر کیے جائیں تو شرک نہیں ہوں گے لیکن اس صورت میں حرام ہوں گے۔ حاصل کلام یہ کہ تعظیم کے وہ افعال واقوال جو خدا کے ساتھ مخصوص نہ ہوں اور ان کو مذکورہ بالا اعتقاد کے بغیر غیر خدا کے لیے بجا لایا جائے تو وہ عبادت میں شمار نہیں ہونگے اس لیے ایسی تعظیم غیر خدا کے لیے جائز ہے۔
استعانت: اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔ یہاں بھی مفعول کو فعل پر اس لیے مقدم کیا تاکہ حصر کا فائدہ حاصل ہو مطلب یہ کہ جس طرح عبادت صرف اللہ ہی کی ہونی چاہئے اسی طرح استعانت(مدد طلب کرنا)بھی صرف اسی ہی سے ہونی چاہئے۔ نہ کسی اور سے۔ استعانت(یعنی حاجات ومشکلات میں پکارنا اور مدد مانگنا)چونکہ عبادت کی سب سے بڑی اور اہم شاخ ہے اس لیے عبادت کے بعد خصوصیت سے اس کا ذکر فرمایا۔ ہر آدمی جو کسی معبود کی عبادت کرتا ہے۔ دنیوی زندگی کے اعتبار سے اس کی عبادت کا مقصد اور لب لباب ہے۔ الدعاء مخ العبادة۔ اور ایک روایت میں ہے الدعاء هو العبادة[1]یعنی پکارنا ہی اصل عبادت ہے قرآن مجید میں بھی لفظ عبادت بمعنی دعاء اور پکار وارد ہوا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ [2]اور تمہارے پروردگار نے فرمادیا ہے کہ مجھ کو پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا جو لوگ(صرف)میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ عنقریب(مرتے ہی)ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ اس آیت میں پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی پکار کا حکم فرمایا ہے پھر پکار کو لفظ عبادت سے تعبیر فرمایا جیسا کہ خود نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ عِبَادَتِيسے مراد دُعَائِی ہے یعنی اس آیت میں عبادت سے دعا اور پکار مراد ہے۔[3]سورۃ زمر اور حوامیم کا مرکزی مقصد ہے فَادْعُوْهُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ[4]اور سورۃ فاتحہ میں اسی دعویٰ کو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ سے بیان کیا گیا ہے اس طرح سارے قرآن کا مرکزی مضمون حوامیم میں اور حوامیم کا خلاصہ سورۃ فاتحہ میں اور فاتحہ کا لب لباب اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں ہے۔
ایک شبہ: ہم ہر وقت یہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مدد مانگتا ہے اور اسے اپنی مدد کے لیے پکارتا اور اس سے مدد کی درخواست کرتا ہے۔ یہ باہمی مددوامداد کا سلسلہ اس قدر وسیع اور ضروری ہے کہ اس کے بغیر دنیا کا
[1] ابن ماجہ،امام،سنن ابن ماجہ،ح:3828،دارالسلام ،لاہور پاکستان،1428ھ،5/175۔176
[2] المؤمن 60:40
[3] ابن کثیر،4/85
[4] المؤمن 65:40