کتاب: مباحث توحید - صفحہ 15
پاک پر فکروفہم کی بڑی دولت پائی تھی اور آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ ان سے متمتع ہوئے۔اختلاف واتفاق تو الگ چیز ہے مگر قرآن پاک کے مضامین کو جِس طرح انہوں نے سمجھا ہے وہ ہندوستان میں عزیز الوجود ہے مسئلہ توحید میں انہماک واستغراق صوفیانہ اصلاح میں ان کیفیت ِ ایمانی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی روح پر ہزار ہا رحمتیں نازل فرمائے۔[1]
(2) اسی طرح مجاہد ملّت حامئِ سنّت حضرت مولانا سیّد نور الحسن شاہ صاحب بخاری:
شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب مدظلہ العالی کو اللہ رب العزت نے اپنے کلامِ قدیم قرآن کریم کی خدمت کے لیے چن لیا تھا آپ نے کتاب اللہ کی نشرواشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔قرآن کریم کا زیر نظر ترجمہ اور تفسیر اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔حضرت شیخ الہندرحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ حضرت مولانا حسین علی صاحب(جواہر القرآن)اور شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ وحضرت شاہ عبد القادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فوائدکی ترتیب واشاعت قرآن کریم کی ایک بے مثال خدمت ہے۔جو اللہ رب العزت نے اپنے ایک مقبول بندہ حضرت شیخ القرآن سے لی ہے۔[2]
(3) ایسے ہی استاذ العلماء حضرت مولانا غلام رسول خان صاحب:
حضرت مولاناالعلام ماہر علوم نقلیہ وعقلیہ ومحقق احکام الشریعیہ اصولیہ وفرعیہ وارفع لواء السنۃ وقایع رایات البدعۃ موصوف بہمہ صفات الحاج مولانا غلام اللہ خان کی تفسیر جواہر القرآن پارہ اول کے بعض مقامات نظر سے گزرے ہیں۔تفسیرمیں بحمد اللہ مقاصد قرآن کریم باحسن الطریق بیان کیے گئے‘اللہ تعالیٰ مولانا کے علم میں برکت عطا فرمائے۔ تفسیر کو ہُدًی للناس کا مصداق بنائے۔آمین یا رب العالمین۔[3]
مولانا حسین صاحب نیلوی رحمۃ اللہ علیہ مولانا الوانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اگرچہ حضرت جی خواجہ محمد عثمان رحمۃ اللہ علیہ کے مریدین میں بڑے بڑے علماء کرام ماہر فی العلوم والفنون موجود تھے لیکن انہوں نے اپنے صاحبزادے خواجہ محمد سراج الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیم کے لیے خصوصی طور پر حضرت جی مولانا حسین رحمۃ اللہ علیہ کو منتخب فرمایا۔‘‘
چنانچہ آپ واں بھچراں سے چلے گئے اور موسٰی زئی شریف چلے گئے وہاں جاکر صاحبزادہ محمد سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ کو کتب وفنون پڑھائے۔کبھی کبھی بحث ومباحثہ کے وقت حضرت حاجی خواجہ محمد عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں کوئی مشکل مسئلہ در پیش آجاتا تھا اور علماء کرام کا باہم نزاع ہو جاتا تھا اور تحقیق مبحث شروع ہو جاتی تو خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتےکہ:حسین علی!تم بتاؤ اس مسئلہ مبحوث عنہا کا کیا حل ہے تومولانا متقدمین ومتأخرین کے اقوال پیش فرماتے‘تو خواجہ صاحب فرماتے کہ میں نے علماء کے مسالک نہیں پوچھے بلکہ اس مبحوث عنہا مسئلہ میں تمہارا کیا مسلک اور فتوٰی ہے؟اس واقعے
[1] حسین علی الوانی،مولانا، مقدمہ جواہر القرآن،کتب خانہ رشیدیہ مدینہ مارکیٹ ،راولپنڈی،س،ن،ص 7
[2] ایضاً،ص 12
[3] ایضاً،ص 8