کتاب: مباحث توحید - صفحہ 14
ہو۔
4. حتی المقدور آیت کا ایسا مفہوم بیان کیا گیا ہے جس میں حذف وتقدیر کی ضرورت ہی پیش نا آئے یا کم ازکم اس کا ارتکاب کرنا پڑے مثلاً لفظ’’اذا‘‘کا متعلق عام طور پر ہر جگہ’’اذکر‘‘ مقدر مانا جاتا ہے مگر مصنف رحمۃ اللہ علیہ اذ کے بعد کسی مناسب فعل مذکور کو اس کا عامل قرار دیتے ہیں کیونکہ ظروف کا اپنے عوامل پر تقدم جائز ہے۔
5. آیت کا وہی مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس پر سرے سے کوئی خارجی اعتراض اور شبہ وارد ہی نہ ہو اور تکلفِ جواب کی ضرورت ہی پیش نہ آئے مثلاً الحمد للہ میں الف لام کو عام طور پر استغراق کے معنوں میں لیا جاتا ہے پھراس پر سوال وجواب کا طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو علماء اور طلباء میں معروف ہے مثلاً ایک یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب تمام تعریفیں اللہ کے لیے خاص ہیں تو پھر غیرخدا کی تعریف کیوں کی جاتی ہے حالانکہ غیر خدا کی تعریف خود اللہ نے قرآن پاک میں کی ہے تو اسکا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ غیرخدا کی تعریف بھی دراصل خدا کی تعریف ہے کیونکہ مخلوق کی تمام خوبیوں کا سرچشمہ اور عطا کنندہ اللہ تعالیٰ ہے اس لیے کسی خوبی کیوجہ سے مخلوق کی جو تعریف ہوگی وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہوگی۔لیکن حضرت شیخ الف لام کو اس کے حقیقی مفہوم یعنی عہد پر محمول کرتے ہیں اور حمد سے اللہ تعالیٰ کی صفات الوہیت مراد لیتے ہیں۔اب الحمد للہ کا مطلب یہ ہو گا’’صفات الوہیت یعنی وہ خوبیاں اور صفتیں جو کسی ذات کے الٰہ حق او رمعبود حق ہونے کے لیےضروری ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں اور اس کے سوا کسی دوسری ہستی میں نہیں پائی جاتیں‘‘اس مفہوم پر سوال مذکور اور اسی نوع کے دوسرے سوالات وارد نہیں ہوتے۔
6. بعض مفسرین نے نسخ کا وسیع مفہوم سامنے رکھ کر کئی سو آیتوں کو منسوخ قرار دیدیا۔لیکن نسخ کےخاص مفہوم ..’’آیت کی تلاوت باقی رہے اور اس کا حکم اُٹھ جائے‘‘....کے پیش نظر علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 911ھ صرف بیس آیتوں کو منسوخ مانا ہے حضرت شاہ ولی اللہ نے پانچ آیتوں کو منسوخ کہا ہے اور پندرہ آیتوں کی ایسی توجیہہ فرما دی ہے کہ وہ وہ منسوخ نہیں رہتیں لیکن مولانا الوانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں یہ پانچ آیتیں بھی محکم ہیں منسوخ نہیں ہیں اور مصنف نے ان کی نہایت عمدہ توجیہہ فرما دی ہے۔
7:- بطور تائید مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے عربی تفسیروں کے حوالے بھی دیے ہیں۔چونکہ ہر آیت کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول نہیں تھی لہٰذا متداول تفسیروں سے استفادہ کر کے ایک مکمل اور مستند تفسیر کی صورت اہل علم کی خدمت میں پیش کیا ہے۔
(1) جواہر القرآن کے بارے میں مؤرخ اسلام حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ:
راستہ میں آپ کی کتاب جواہر القرآن[1] پڑھی۔دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کے شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآنِ
[1] اس سے تفسیر جواہر القرآن کا مقدمہ مراد ہے جو پہلے کئی بار علٰیحدہ کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔