کتاب: مباحث توحید - صفحہ 11
سندِ حدیث: مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ عن الشیخ رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ عن شیخ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ عن سید عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ عن الشیخ عابد السندی رحمۃ اللہ علیہ عن الشیخ احمد سعیدرحمۃ اللہ علیہ عن ابیہ ابو سعیدرحمۃ اللہ علیہ و شاہ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ وھما عن شاہ عبد العزیز عن شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ۔[1] اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے قصبہ واں بھچراں میں تدریس شروع کی اور مختلف کتابیں صرف، نحو، منظق، حساب،ریاضی،فلسفہ،ہندسہ، فقہ،اصول فقہ،حدیث،اصول حدیث،تفسیر،اصول تفسیر،معانی،بیان، بدیع، مناظرہ، بدیع، مناظرہ، میراث وغیرہم تمام فنون کی کتابیں پڑھائیں اور دور دراز سے طالب علم آ پ کے پاس پڑھنے کے لیے آتے رہتےتھے۔زیادہ تر قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر اور حدیث پڑھائی اور یہ خدمت تقریباً ساٹھ سال تک کی ہے اور بے شمار علماءکرام رحمۃ اللہ علیہ نے آپ رحمۃ اللہ علیہ سے ترجمہ اور تفسیر پڑھی ہے۔ جب مولانا کی عمر میں سے بیس سال گزر چکے تھے کہ شوق جستجو اور تلاشِ مرشد ہوئی‘استخارے شروع کیے خواب میں ایک درویش کو دیکھا اور ان کے مکان کو‘درویشوں کے حالات دریافت کرنے شروع کر دیئے اور ان درویشوں کے مقامات کی علامات دریافت کرنی شروع کیں آخر ایک طالب علم نے([2])ایک شکل وصورت بیان کی اس کے سنتے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ روانہ ہو گئے جب خانقاہ شریف سون پہنچے تو وہی مقام اور وہی شکل وصورت دیکھی جیسا کہ خواب میں دیکھا تھا حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے جب پوچھا کہاں سے آئے ہو عرض کیا قصبہ واں بھچراں سے‘فرمایا کہ مولوی حسین علی رحمۃ اللہ علیہ کا کچھ حال معلوم ہے عرض کیا خیریت سے ہیں۔پھر فرمایا کہ کیا تم اس کے اقرباء میں سے ہوعرض کیا میں خود حسین علی ہوں خواجہ صاحب ان کو لے گئے اور نہایت عزت سے بٹھایا‘ تھوڑی دیر بعد مولانا نے بیعت کی اجازت طلب کی تو خواجہ صاحب نے فرمایا کہ اس طریق میں کشف وکرامات نہیں‘اس طریق میں تو اپنے آپ کو جلانا ہے(دریں طریق سوختن است)تم نے اس قدر عمر تحصیل علم کی اور تکلیف بھی برداشت کی ہے پھر کیوں اپنے آپ کو جلاتے ہو(بازچرامی سوزی)عرض کیا کہ حضور محض دین کے لیے آیا ہوں آخر کار حضرت نے بیعت سے مشرف فرمایا اور طریقہ عالیہ میں داخل کیا۔ حضرت خواجہ محمد عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی وفات جولائی 1889ء کو ہوئی اس کے بعد ان بیٹے حضرت خواجہ سراج الدین صاحب کے ہاتھ پر مولانا نے تجدید بیعت کی۔[3] مولانا الوانی رحمۃ اللہ علیہ کے مشائخ میں آپ کے والد محترم حافظ میاں محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ مولانا غلام نبی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ‘مولانا سلطان احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ‘حضرت مولانا محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ ‘مولانا رشید احمد گنگوہی
[1] حالات مولانا حسین علی،ص 83-84 [2] جو مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث شریف پڑھتا تھا اس نے سون کی خانقاہ کا نشان بتایا۔ [3] حاشیہ فیوضات حسینی،ص 51-16