کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 85
ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی غرض سے رات کو ہی حلقہ درس میں آجاتے تھے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ جب مسند پر براجمان ہو تے تو صرف یہی کہتے ’مَنْ جَائَ أوَّلًا فَلْیَقْرَاْ‘ ’’جو سب سے پہلے آیاہے وہ پڑھے۔‘‘ اسی طرح ترتیب کے ساتھ سب سے سنتے جاتے تھے۔ کسی دن اتفاق سے ایک طالب علم سب سے پہلے آگیا۔ شیخ حسب معمول مسند پر براجمان ہوئے اور کہا: ’مَنْ جَائَ ثَانِیًا فَلْیَقْرَاْ‘ ’’جو دوسرے نمبر پر آیا ہے، وہ پڑھے۔ دوسرے طالب علم نے قراء ت شروع کردی۔ پہلا طالب علم انتہائی پریشان ہوا کہ شاید اس سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے جس کی وجہ سے شیخ نے اسے قراء ت سے محروم کردیا ہے۔ اس نے سوچ و بچار کیا تو اسے یاد آگیا کہ آج را ت وہ جنبی ہوگیا تھا اور شوق علم میں اسے غسل کرنا یاد نہیں رہا تھا۔ چنانچہ وہ فوراً اُٹھا اور مدرسہ کے حمام میں جاکر غسل کیا اور دوسرے طالب علم کی قراء ت ختم ہونے سے پہلے پہلے حلقہ میں آکر بیٹھ گیا۔ نابینا شیخ اپنی حالت پر بیٹھے رہے۔ جب دوسرے طالب علم کی قراء ت ختم ہوگئی تو شیخ نے کہا: ’مَنْ جَائَ أوَّلًا فَلْیَقْرَاْ‘ ’’جو پہلے نمبر پر آیا ہے وہ پڑھے۔‘‘ چنانچہ اس نے پڑھا۔[1]
علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ مشایخ کے گروہ سے واقع ہونے والا حسین ترین عمل ہے۔ بلکہ ہم نہیں جانتے کہ دنیا میں اس سے پہلے ایسا کبھی واقع ہوا ہو، اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو امام شاطبی رحمہ اللہ کی کرامت ہے۔‘‘[2]
۸۔ حلقہ قرآن چلانے کی مہارت:
مدرس میں حلقہ قرآن قایم کرنے کی قدرت کا وجود، طلبا کے سکون و اطمینان اور اعتماد کے لیے بے حد اہم اور ضروری ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اخلاصِ معلم، صدقِ تقوی، شعور او رحسنِ اخلاق جیسی صفاتِ ذاتیہ اور تعلیم میں تدریج، طلبا پر انفرادی توجہ، نرمی اور صبر جیسی صفاتِ تربویہ سے مزین ہونا حلقہ قرآن کو کامیابی سے چلانے کے بنیادی
[1] غایۃ النھایۃ:۲-۲۱،۲۲.
[2] غایۃ النھایۃ:۲-۲۲.