کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 84
نفسیات کا خیال رکھا جائے۔ سلام، مسکراہٹ، نظر شفقت، حوصلہ افزائی کے کلمات اور خیر خواہانہ جذبات کا اظہار کرکے ان کا حوصلہ بلند کیا جائے۔ تاکہ معلم اور طلباء کے درمیان اچھے تعلقات قایم ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں شریک ہر شخص کو اس کا پورا پورا حق دیتے تھے۔ کوئی شخص یہ گمان نہ کرتا تھا کہ فلاں آدمی مجھ سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہے۔ [1]
یہ ایک ایسا امر ہے جس کی رعایت صرف وہی شخص کرسکتا ہے، جس کی نیت خالص ہو، وہ اپنے معاملات میں سچا ہو اور نفسیات کو سمجھتا ہو۔
طلبا کے درمیان نا انصافی کرنے سے ان کے دلوں میں بغض اور کینہ پیدا ہوجاتا ہے، اور وہ اپنے معلم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ لہٰذا معلم کو چاہیے کہ وہ طلباء کے حوالے سے انتہائی محتاط رہے اور بعض طلبا کے ساتھ اپنی محبت، شفقت، فضیلت اور خصوصی اہتمام کو دیگر طلبا پر ظاہر نہ کرے۔ ورنہ ان کے قلوب و اذہان میں وحشت اور نفرت پیدا ہوجائے گی۔ [2]
البتہ اگر بعض طلباء اپنی محنت، شوق علم، حسن اخلاق اور ذہانت و فطانت میں دیگر طلبا پر ممتاز ہوں تو بطور ترغیب حکمت کے ساتھ ان کی صفات حمیدہ کو بیان کیا جاسکتا ہے۔ تاکہ ان میں بھی آگے بڑھنے کا عزم پختہ ہو۔[3]
عدل کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قراء ت میں ترتیب کے ساتھ طلبا کو پڑھائے۔ پہلے آنے والوں کو پہلے پڑھائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ لیٹ آنے والوں کو پہلے پڑھا کر فارغ کردے اور پہلے آنے والوں کو مؤخر کردے۔ یہ عدل و انصاف کے خلاف عمل ہے۔
اس تعلیمی اسلوب کے حوالے سے امام شاطبی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ وہ:
نماز فجر فاضلیہ میں پڑھتے تھے۔ پھر مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوجاتے تھے۔ لوگ
[1] رواہ الترمذی فی الشمایل:۱۶۸.
[2] تذکرۃ السامع والمتکلم:۵۹.
[3] تذکرۃ السامع والمتکلم:۵۹.