کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 82
اپنی طرف بلاتا ہے۔‘‘[1]
متقدمین اہل علم نے بھی اس اسلوب کو اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔
امام ابن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((وَیَبْدَأُ بِتَصْوِیْرِ المَسَائِلِ، ثُمَّ یُوَضِّحُھَا بِالْأَمْثِلَۃِ۔))[2]
’’معلم کو چاہیے کہ وہ مسایل کا خاکہ بنا کر مثالوں کے ساتھ اس کی وضاحت کرے۔‘‘
اس توضیحی اسلوب کو اختیار کرنے سے معلومات طلباء کے قلوب و اذہان میں پختہ ہو جاتی ہیں ان تعلیمی و توضیحی وسایل کو استعمال کرنے کے متعدد فوائد ہیں۔
اس سے سامع کی فکر مرکوز، حواس مجتمع، روح چست اور دقت ملاحظہ کا فایدہ حاصل ہوتا ہے۔ معلومات پختہ ہوتی ہیں، وقت محفوظ ہوتا ہے۔ اور معلم و متعلم کی جدوجہد اور محنت ضایع نہیں ہوتی۔[3]
میں دیکھتا ہوں کہ تجوید و قراء ات کی تدریس میں اس اسلوب کو اختیار کرنا انتہائی اہم اور ضروری ہے۔ کیونکہ کسی مسئلہ کی خیالی تصویر بنا دینے سے وہ طلبا کے قلوب و اذہان میں پختہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً:اگر کوئی مدرس تجوید و قراء ات کی اہمیت اور مسلسل ریاضت کو بیان کرنے کے لیے مبتدی ڈرائیور کی مثال دے دیتا ہے کہ مبتدی ڈرائیور انتہائی احتیاط اور کوشش کے باوجود گاڑی درست نہیں چلا سکتا، مگر ایک عرصے کے بعدجب وہ ماہر ڈرائیور بن جاتا ہے تو بلا خوف و خطر اور بغیر احتیاط کے اچھے طریقے سے گاڑی چلا سکتا ہے۔
تو اس مثال سے طالب علم کے ذہن میں تجوید و قراء ت کی مسلسل ریاضت مہارت اور تجربہ کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے کہ ایک ماہر اور تجربہ کار قاری خیال رکھے بغیر درست تلفظ ادا
[1] مستدرک حاکم:۲-۳۱۸.
[2] تذکرۃ السامع والمتکلم:۵۲.
[3] طرق تدریس التجوید:۵۲.