کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 81
ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے۔ اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔‘‘
جس قدر عصر حاضر کے حلقات تعلیم میں صبر و تحمل کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے ماضی میں کبھی نہ تھی۔ کیونکہ آج علمی و فنی ترقی اپنے عروج پر ہے۔ جدید ذرایع ابلاغ نے پوری دنیا کو ایک بستی بنا کر رکھ دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں پر امن اور مستحکم معاشرے کی تشکیل کرنی ہے۔ اور عصر حاضر کے تقاضوں پر پورا اترنا ہے۔ جو صبر و تحمل، نرمی و شفقت اور تدریجی اسلوب کو اختیار کرکے ہی ہم حاصل کرسکتے ہیں۔ اس منہج پر چلنے سے طلبا کے اندر اخلاق حسنہ اور صفات حمیدہ پیدا ہوں گی۔ اور تربیتی حلقات کے اہداف کے حصول کی طرف راہ ہموار ہوگی۔ ورنہ طلبا متنفر ہو جائیں گے اور ان حلقات میں شریک نہیں ہوں گے۔ کیونکہ بے صبری اور عدم تحمل سے اصلاح کی بجائے فساد زیادہ ہوتا ہے۔[1]
۶۔ توضیحی ومعاون وسایل کا استعمال:
یہ عظیم اسلوب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ سے ماخوذ ہے۔ آپ مختلف شکلوں اور انداز میں اس اسلوب کو اختیار کرتے تھے۔ کبھی زمین اور مٹی پر لکیریں کھینچ کر معانی کی وضاحت کرتے تو کبھی تشبیہات اور تمثیلات کے ذریعے اپنی بات کو سمجھاتے۔ بسااوقات بات کرتے وقت اشاروں کی زبان میں دقیق مسایل کو آسان بنانے کی کوشش کرتے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ ﴿وَاَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ﴾ (الانعام:۱۵۳) پڑھی۔ اور زمین پر ایک لمبی لکیر کھینچ کر فرمایا یہ صراط ہے۔ پھر اس کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچ کر فرمایا یہ سُبل ہیں۔ ان میں سے ہر سبیل اور راستے پر شیطان بیٹھا ہے جو انسان کو
[1] مھارات التدریس فی الحلقات القرآنیۃ:۷۵.