کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 79
طالب علم خود اصلاح نہ کرسکے تو اسے ایک آیت پہلے سے لگا دے۔ اس سے بھولا ہوا سبق مستحضر اور یاد آجاتا ہے۔ اگر اس کی غلطیاں کثیر تعداد میں آرہی ہوں تو اسے تکرار آیت کے دوران دل میں اللہ سے توبہ کرنے کی تلقین کرے، اسے مضبوط حفظ کا باعث بننے والے اصولوں کی طرف راہنمائی کرے اور حفظ کو کمزور کردینے والے اسباب سے دور رہنے کی نصیحت کرے۔
ہمارے بعض مشایخ طالب علم پر فوری رد کے حوالے سے فرمایا کرتے تھے:
(( اَلسَّنَدَۃُ تُکَرِّمُ وَالرِّدَّۃُ تُحَطِّمُ۔))
’’سہارا دینا باعث عزت اور رد کرنا باعث انہدام ہے۔‘‘
یعنی صحیح جواب کی تلاش کے لیے طالب علم کو سہارا دینے میں اس کی عزت و توقیر ہے۔ کیونکہ صحیح جواب کی صورت میں طالب علم کو خوشی محسوس ہو تی ہے۔ اور اسے موقع دیے بغیر براہ راست رد کردینے سے اس میں احساس کمتری پیدا ہوجاتی ہے۔ سہارا دینے والا طریقہ کار ہی صحیح اور درست ہے۔
۵۔ متعلم پر صبر:
صبر اخلاقیات انسانی کا وہ عظیم سر چشمہ ہے جس کے ذریعے انسان بلندیوں کو پالیتا ہے۔ صبر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سو مرتبہ سے زیادہ اس کا تذکرہ کیا ہے۔
صبر کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلصَّبْرُ ضِیَائٌ۔)) [1]
’’صبر روشنی ہے۔‘‘
ضیا ایسی روشنی کو کہا جاتا ہے جس میں حرارت اور جلن ہوتی ہے۔ جیسے سورج کی روشنی بخلاف چاند کی روشنی کے، جو خالص روشنی ہوتی ہے، اس میں حرارت وغیرہ نہیں ہوتی۔ صبر
[1] مسلم:۲۲۳.