کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 78
یُقْصِرُ مِنَ الدَّعَاوِی وَحُبِّ الْمُنَاظَرَۃِ وَیُزْرِی عَلَی نَفْسِہ)) [1]
’’ہاں! بسا اوقات طالب علم حب علم، ازالۂ جہل اور وظایف وغیرہ کی نیت سے علم حاصل کرتا ہے۔ اس میں اخلاص اور صدق نیت کا فقدان ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ علم حاصل کرلیتا ہے تو اپنا محاسبہ کرتا ہے، اللہ سے ڈرتا ہے، اپنی اصلاح کرتا ہے اورکلیۃً یا جزوی طور پر اپنی نیت کو خالص کرلیتا ہے اور فاسد نیت سے توبہ کرلیتا ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ وہ علم کے بڑے بڑے دعوے نہیں کرتا، مناظرے کو ناپسند کرتا ہے اور اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے۔‘‘
نرمی کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ بھی ہے کہ طالب علم کو اس کی غلطی پر شفقت اور پیار کے ساتھ متنبہ کیا جائے۔ امام آجری رحمہ اللہ اپنی کتاب ’اخلاق المقری‘ میں فرماتے ہیں:
((وَیَنْبَغِیْ لِمَنْ قَرَأَ عَلَیْہِ الْقُرْآنَ فَأَخْطَأَ فِیْہِ، أَوْ غَلَطَ أَلَّا یُعَنِّفَہُ، وَأَنْ یَرْفُقَ بِہِ، وَلَا یَجْفُو عَلَیْہِ وَیَصْبِرُ عَلَیْہِ، فَإِنِّی لَا آمَنُ أَنْ یَّجْفُوَا عَلَیْہِ فَیَنْفِرُ عَنْہُ، وَبِالْحَرِیِّ أَلَّا یَعُوْدَ إِلَی الْمَسْجِدِ۔)) [2]
’’قرآن مجید کی تعلیم دینے والے مقری کو چاہیے کہ وہ طلبا کی اغلاط و اخطا کو سختی کی بجاے نرمی سے درست کرے او ران کی مصیبتوں پر صبر کرے، کیونکہ سختی کرنے سے بسا اوقات طالب علم تعلیم سے متنفر ہو جاتا ہے اور دوبارہ مسجد کا رخ نہیں کرتا۔ ‘‘
ہاں! سختی اسباب نفرت میں سے ایک بدترین سبب ہے، مدرس کو چاہیے کہ وہ طالب علم کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آئے، زجر و توبیخ اور سختی سے اجتناب کرے، سزا دینے میں جلد بازی سے کام نہ لے۔ کوشش کرے کہ طالب علم خود ہی اپنی غلطی کی اصلاح کرے، اگر
[1] سیر اعلام النبلاء:۷-۱۷.
[2] اخلاق حملۃ القرآن:۵۳.