کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 76
علم تجوید میں بعض لوگ فقط تلقی و مشافہت پر ہی اکتفا کرتے ہیں، بعض کچھ بیانی قواعد بھی یاد کرلیتے ہیں۔جبکہ بعض مقدمہ جزریہ اور تحفۃ الأطفالوغیرہ جیسے معاون متون کو یاد کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
معلم پر اس متفاوت فہم اور ذہنی استعداد کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں بعض معلمین بڑی غلطی کا شکار ہیں، وہ تمام قابل اور ضعیف طلباء کو مساوی استعداد کا حامل قرار دے کر ایک ہی سبق دے دیتے ہیں جو کمزور طلباء کے لیے دقت اور قصر ہمتی کا باعث بنتا ہے۔
۴۔تعلیم دینے میں نرمی:
تعلیم و تربیت کے میدان میں نرمی اختیار کرنے کو ایک اہم اصول کی حیثیت حاصل ہے۔ نرمی میں برکت ہے اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ حدیث نبوی ہے:
((إِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْأَمْرِ کُلِّہِ، وَیُعْطِی عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِی عَلَی الْعُنْفِ، وَمَا لَا یُعْطِی عَلَی سِوَاہ۔))[1]
’’بے شک اللہ تعالیٰ نرم ہے اور تمام امور میں نرمی کو پسند کرتا ہے، اور نرمی پر وہ کچھ دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا، اور نہ ہی نرمی کے سوا کسی شے پر دیتا ہے۔ ‘‘
کمزور عقل والے طلبا خصوصاً چھوٹے بچوں میں اس نرمی کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، جو نرم و نازک احساسات کے مالک ہوتے ہیں۔
معلم کا اپنے طلباء کے ساتھ تواضع اور عاجزی و انکساری سے پیش آنا، نرمی کی صورتوں میں سے ایک عظیم صورت ہے۔ اس اسلوب کو اختیار کرنے سے طالب علم اپنے استاد سے علم اور ادب دونوں کی تعلیم حاصل کرتا ہے۔ طالب علم اپنے استاد کے قریب ہوجاتا ہے اور ان دونوں کے درمیان اچھے تعلقات پروان چڑھتے ہیں جو علمی رسوخ کا باعث بنتے ہیں۔
تواضع کی مثال نشیبی زمین کی سی ہے۔ جس میں آسمان کی تمام خیرات جمع ہوجاتی ہیں، جبکہ بلند و بالا ٹیلے اور اونچی اونچی پہاڑی چوٹیاں اس خیر سے محروم رہتی ہیں۔
[1] بخاری:۶۰۲۴.