کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 74
کو اس کے مناسب حال جواب دیتے۔ اور طالبین نصیحت کو ان کے احوال کے مطابق ایک دوسرے سے مختلف نصیحتیں کرتے اور سایل کی نفسیات کو سامنے رکھ کر اسے افضل و أعلی عمل بتلاتے تھے۔ احادیث نبویہ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جن کا یہاں تذکرہ کرنا طوالت کا باعث ہوگا۔[1]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّکَ غُلَیِّمٌ مُعَلِّمٌ۔))[2]
’’تو چھوٹی عمر میں ہی معلم ہے۔‘‘
وہ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں:
((وَلَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنِِّی أَعْلَمُھُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ، وَلَوْ أَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنِّی لَرَحَلْتُ إِلَیْہ۔))[3]
’’تمام صحابہ کرام اس بات کو جانتے ہیں کہ میں ان میں سے کتاب اللہ کا سب سے بڑا عالم ہوں، اگر مجھے علم ہوجائے کہ فلاں شخص مجھ سے بھی بڑا عالم ہے تو میں حصول علم کے لیے اس کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ہوں۔‘‘
امام شقیق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں صحابہ کرام کے متعدد حلقات میں شریک ہوا ہوں، میں نے کسی صحابی کو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر رد کرتے یا عیب لگاتے نہیں سنا۔ [4]
یہی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ذہنی استعداد کا خیال رکھنے کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
((مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لَا تَبْلُغُہُ عُقُوْلُھُمْ، إِلَّا کَانَ لِبَعْضِھِمْ فِتْنَۃٌ۔))[5]
[1] الرسول المعلم وأسالیبہ فی التعلیم:۸۱،۹۱.
[2] مسند احمد:۱-۳۷۹.
[3] رواہ مسلم:۴- ۱۹۱۲.
[4] مسلم:۴-۱۹۱۲.
[5] رواہ مسلم فی مقدمۃ صحیحہ:۱-۱۱.