کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 73
’’قرآن مجید کی تعلیم دینے والے ہر معلم پر فقیہہ ہونا لازم ہے۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
عالم ربانی وہ ہے جو دقیق مسایل سے قبل آسان مسایل کے ساتھ لوگوں کو تربیت کرتا ہے۔[1]
لہٰذا ہر معلم پر واجب ہے کہ وہ طلباء کی ذہنی استعداد اور عمروں کے تفاوت کا خیال رکھے اور ہر طالب علم کو اس کی استعداد کے مطابق تعلیم دے۔
امام نووی رحمہ اللہ اس تربیتی منہج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’طالب علم کی تربیت تدریجاً کی جائے اور اسے اخلاق حسنہ و صفات حمیدہ سے مزین کیا جائے۔‘‘
مذکورہ اقوال و آثار کی روشنی میں معلم قرآن پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں اس تدریجی اسلوب کو اپنائے، کیونکہ تعلیمی کمال جلد بازی کی بجائے تدریجی اصول پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ حلقات قرآنیہ میں اس اسلوب کی ضرورت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ حلقات قرآنیہ میں اگر اس اسلوب کی رعایت نہ رکھی جائے تو وہ ناکامی سے دو چار ہوجاتے ہیں اور مطلوبہ اہداف کاحصول ناممکن ہوجاتا ہے۔
۳۔طلبا پر انفرادی توجہ:
عملی تربیت کے میدان میں انفرادی طور پر ہر طالب علم کی ذہنی استعداد، قوت و لیاقت اور فہم و حفظ کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ اصول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ اور معلم انسانیت کی راہنمائی پر مبنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم متعلمین، مخاطبین اور سائلین کی ذہنی استعداد کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے۔ ہر شخص سے اس کی فہم کے مطابق مخاطب ہوتے اور مخاطبین کے مقام و مرتبے کا خیال رکھتے۔ آپ نئے مسلمان ہونے والے لوگوں کو پہلے مبادیات اسلام کی تعلیم دیتے اور انہیں وہ دقیق مسایل نہ سکھاتے جو پرانے مسلمانوں کو سکھاتے تھے۔ ہر سایل
[1] کتاب العلم، باب العلم قبل القول والعمل: فتح الباری:۱-۱۹۲.