کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 72
منہج عمومی طور پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر نافذ کیا تھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
((لَقَدْ عِشْنَا بُرْھَۃً مِن دَھْرِنَا، وَإِنَّ أَحَدَنَا لَیُؤْتِی الْاِیْمَانَ قَبْلَ الْقُرْآنِ وَتَنْزِلُ السُّوْرَۃُ عَلَی مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم فَنَتَعَلَّمُ حَلَالَھَا وَحَرَامَھَا، وَمَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُوْقَفَ عِنْدَہُ مِنْھَا۔))[1]
’’ہم روشن زمانے کی پیداوار ہیں، ہم میں سے ہر شخص قرآن کریم سیکھنے سے پہلے ایمان لاتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سورت بھی نازل ہوتی، ہم اس کے حلال و حرام اور اوقاف کو آپ سے سیکھ لیتے تھے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد یہ تدریجی منہج تابعین عظام میں بھی رایج رہا۔ تابعین کا طریقہ تعلیم کا مشاہدہ کرنے والے بعض رواۃ سے منقول ہے کہ:
’’آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ ایمان سے پہلے قرآن سیکھتے ہیں، سورۃ الفاتحہ سے لے کر سورۃ الناس تک مکمل قرآن مجید پڑھ جاتے ہیں مگر انہیں اس میں موجود اوامر و نواہی اور اوقاف سمیت کسی چیز کا علم نہیں ہوتا۔‘‘
یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے جس کا ہم حلقات تعلیم میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ قرآنی اخلاق و آداب سے عاری ایک شخص مسند تدریس پر براجمان ہوتا ہے اور تعلیم دے رہا ہوتا ہے ۔ اس کا ایک بڑا سبب تلقی و مشافہت میں صحیح منہج سے اعراض ہے، اس سے کلام الٰہی حفظ تو ہوجاتا ہے مگر حقیقی نفع حاصل نہیں ہوتا۔
اس اعتبار سے ہرمعلم پر واجب ہے کہ وہ اپنی تعلیم میں حکیم اور اپنے علم میں فقیہہ ہو۔ امام ضحاک رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ ﴿بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَبِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَُ﴾ (آل عمران:۷۹) کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
((حَقٌّ عَلَی مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ اَنّ یَّکُوْنَ فَقِیْھًا۔))[2]
[1] مستدرک حاکم:۳۵۱.
[2] تفسیر ابن کثیر:۱-۳۸۵.