کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 71
سلف صالحین ان امور کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے، عمر بن عتبہ رحمہ اللہ اپنے بیٹے کے معلم کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
((لِیَکُنْ أَوَّلُ اِصْلَاحِکَ لِوَلَدِیْ اِصْلَاحَکَ نَفْسَکَ، فَاِنَّ عُیُوْنَھُمْ مَعْقُوْدَۃٌ بِکَ، فَالْحَسَنُ عِنْدَھُمْ مَا صَنَعْتَ، وَالْقَبِیْحُ عِنْدَھُمْ مَا تَرَکْتَ۔))[1]
’’میرے بیٹے کی اصلاح کا سب سے پہلا کام آپ کی اپنی اصلاح ہونی چاہیے، طلباء کی آنکھیں آپ کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں، ان کے نزدیک اچھائی وہ ہے جو آپ کریں گے، اور برائی وہ ہے جو آپ نہیں کریں گے۔‘‘
۲۔تعلیم میں تدریج:
تعلیمی میدان میں تدریجی مراحل کی بہت زیادہ اہمیت ہے، مبتدی طالب علم کو فروع اور جزئیات سے پہلے أصول اور کلیات کی تعلیم دینا اس کے لیے عملی پختگی اور رسوخ کا باعث بنتا ہے۔
تعلیم میں تدریجی مراحل کا یہ منہج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ثابت ہے۔ سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
((کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم وَنَحْنُ فِتْیَانٌ حَزَاوِرَۃٌ، فَتَعَلَّمْنَا الإِیْمَانَ قَبْلَ أَن نَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ فَازْدَدْنَا بِہِ ایْمَانًا)) [2]
’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اور ہم قریب البلوغ لڑکے تھے۔ ہم نے قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا، جس سے ہمارے ایمان اور زیادہ ہوگئے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہوتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تدریجی
[1] المدارس والکتاتیب القرآنیۃ:۱۷.
[2] رواہ ابن ماجہ فی،ح:۶۱.