کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 70
’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن مجید سیکھتا اور سکھلاتا ہے۔‘‘
۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام، سلف صالحین اور ایمہ دین کی اقتدا، تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان متحقق ہوسکے:
((بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْ آیَۃً۔)) [1]
’’میری طرف سے دیا گیا ہر حکم آگے پہنچا دو، اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘
۳۔ شاگرد کا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مضبوط تعلق قایم کرنا۔
۴۔ ممکن حد تک طالب علم کو زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی سورتیں حفظ کروانا۔
۵۔ شاگرد کو مسجد میں نماز باجماعت، اصلاحی دروس اور حلقات تعلیم کا پابند کرنا۔
۶۔ اور شاگرد کو معاشرتی خرابیوں سے بچانا۔ [2]
جس طرح مدرس کے نزدیک تعلیمی مقاصد کی وضاحت اس کے اہداف کی تنفیذ و تکمیل میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح شاگرد پر ان کا عیاں ہونا اس کی استعداد ذہنی اور صلاحیت میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اسی لیے بعض تربیت کنندگان کی رائے میں مدرس پر واجب ہے کہ وہ ہر تعلیمی سال کے پہلے ہفتے میں طلبا کو تعلیم کے اہداف و مقاصد پر لیکچر دے۔ [3]
تعلیمی اہداف کے حصول کے لیے مدرس پر ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام اقوال، افعال اور تصرفات میں، تعلیمات قرآن پر عمل کرنے اور قرآن مجید کی تعظیم کرنے میں، اہل قرآن کی توقیر اور ان کے محاسن بیان کرنے میں، لوگوں کی جسارتوں پر صبر کرنے میں، سچائی اپنانے میں، اچھے کلمات بولنے اور ردی کلمات ترک کرنے میں، تلامذہ کی خیر خواہی کرنے میں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے میں، وعدہ پورا کرنے میں اور اپنے قول و فعل میں مطابقت پیدا کرنے میں اپنے طلبا کے لیے اسوہ حسنہ او ربہترین نمونہ ہو۔
[1] بخاری:۳۴۶۱.
[2] التقسیم الذاتی لمعلم التربیۃ الاسلامیۃ:۹۷،۹۸.
[3] طرق تدریس القرآن للزعبلاوی:۲۸.