کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 68
شاطبی رحمہ اللہ (ت۵۹۰ھ) نے اپنے قصیدہ لامیہ بنام ’حِرْزُ الْأمَانِیْ وَوَجْہُ التَّھَانِیْ‘ کے مقدمہ اور خاتمہ میں بعض تربیتی صفات نقل کی ہیں۔ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ (ت۸۳۳ھ) نے اپنی کتاب ’مُنْجِدُ الْمُقْرِئِیْنَ وَ مُرْشِدُ الطَّالِبِیْنَ‘ میں مدرس کے لیے ضروری تمام آداب وصفات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح علامہ صفاقسی رحمہ اللہ (ت۱۱۱۷ھ) نے اپنی کتاب ’غَیْثُ النَّفْعِ فِی الْقِرَائَ اتِ السَّبْعِ‘ کے مقدمہ میں ان صفات و خصایص کو قلمبند کیا ہے۔
ان تربیتی صفات و آداب کی اہمیت کے پیش نظر اس فصل میں ہم انہی صفات و خصایص کو تفصیلاً بیان کریں گے جو عملی اور تربیتی میدان میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی تفصیل بالترتیب درج ذیل ہے:
۱۔تعلیمی مقاصد کی وضاحت:
مدرس پر تعلیم کے اہداف و مقاصد واضح اور عیاں ہونے چاہئیں۔ کیونکہ جب لوگوں کو یہ علم ہوگا کہ فلاں مدرس کے تعلیمی اہداف و مقاصد بڑے شاندار اور دور رس نتایج کے حامل ہیں تو اس کے لیے معاشرے پر اثر انداز ہوناانتہائی آسان ہو جائے گا اور وہ بھاری ذمہ داریوں کو اٹھانے کے قابل ہو جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے اس حقیقت کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْذِرَ بِہٖ﴾ (الاعراف:۲)
’’یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لیے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ سے ڈرائیں۔سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں (حَرَجٌ مِنْہُ) سے مراد تنگی اور غموض معنی ہے، یعنی آپ کے تبلیغ کے اہداف و مقاصد انتہائی درجہ واضح اور روشن ہونے چاہئیں۔ (فَلَا یَکُنْ)میں یہ حکم ہے