کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 65
مشروعیت اور الفاظ کی معرفت، سورۃ الضحیٰ سے لے کر سورۃ الناس تک پڑھی جانے والی تکبیرات بزی اور وصلاً و قفا اس پر مرتب ہونے والی وجوہ کی معرفت اور علم الفواصل جو رؤوس آیات سے متعلق ہے او روقف و ابتداء میں بڑی اہمیت رکھتا ہے، کی معرفت بے حد ضروری ہے۔[1]
مذکورہ بالا علوم، قرآن مجید کی تعلیم دینے والے مقری اور معلم میں ایسی زبردست صلاحیت پیدا کردیتے ہیں کہ وہ معاشرے میں مؤثر کردار ادا کرنے، مطلوبہ تعلیمی نتایج مہیا کرنے اور قابل و اہل تلامذہ تیار کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
۶۔ طلب علم پر ہمیشگی:
طلب علم پر مداومت، ہمیشگی اور ثابت قدمی، کامیاب معلم کی علامت ہے۔ کیونکہ حصول تعلیم کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ حصول علم کو نصابی مراحل، علمی شہادات اور چند سالوں کے کورسز میں محدود نہیں کیا جاسکتا۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((لَا یَنْبَغِیْ لِأَحَدٍ أَنْ یَکُوْنَ عِنْدَہُ الْعِلْمُ اَنْ یَتْرُکَ التَّعَلُّمَ۔))[2]
’’کسی اہل علم کے لایق نہیں ہے کہ وہ خود تعلیم حاصل کرنا ترک کردے۔‘‘
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابن مجاہد رحمہ اللہ کی کتاب ’جامع القراء ات‘ میں ابن مناذر رحمہ اللہ کے حوالے سے پڑھا ہے کہ انہوں نے امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ سے سوال کیا:
(( حَتّٰی مَتٰی یُحْسِنُ بِالْمَرْئِ أَنْ یَتَعَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَادَامَ تُحْسِنُ بِہِ الْحَیَاۃُ۔))[3]
’’آدمی کو کب تک علم حاصل کرتے رہنا چاہیے؟ انہوں نے فرمایا: جب تک اس
[1] الضوابط والاشارات:۲۰۔ لطائف الاشارات:۱-۳۰۶۔ القول الوجیز:۹۰.
[2] جامع بیان العلم وفضلہ:۱-۴۰۱.
[3] جامع بیان العلم وفضلہ:۱-۴۰۷.