کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 64
۵۔علم رسم القرآن کی معرفت:
قرآن مجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مخصوص رسم الخط میں لکھا گیا۔ جسے رواۃ اور کاتبین مصاحف نے آگے نقل کردیا۔ پھر علما قراء ات نے اس مخصوص رسم الخط کو اپنی مصنفات میں مدون کرتے ہوئے اس کی ہیئت و کیفیت کو امانت و دیانت کے ساتھ محفوظ کردیا۔ ان ہیئات و کیفیات کی تدوین و حفاظت سے یہ ایک مستقل علم ’علم رسم القرآن‘ کی شکل اختیار کرگیا۔ یہ علم نقطاً و رسماً بعض مقامات پر رسم قیاسی سے مختلف اور ممتاز ہے۔
رسم عثمانی کے قواعد کی معرفت کو، علم قراء ات کی معرفت کے اہم ترین ذرایع میں شمار کیا جاتا ہے۔ جس پر امام البقاعی رحمہ اللہ ، امام قسطلانی رحمہ اللہ اور امام صفاقسی رحمہ اللہ سمیت متعدد اہل علم نے زور دیا ہے۔ رسم قرآن کی معرفت چھ قواعد پر منحصر ہے۔
۱۔ حذف: …یعنی الف، وائو یا لام اور بسا اوقات نون کو حذف کردینا۔
۲۔ زیادت:… یعنی الف وائو اور یاء کو زیادہ کردینا۔
۳۔ ہمزات:… یعنی کلمہ کے أول، وسط اور آخر میں ہمزہ کو مخصوص ہیئات سے لکھنا۔
۴۔ ابدال:… یعنی الف کو وائو یا یاء سے، تائے تانیث کو تائے مربوطہ مفتوحہ سے اور نون تاکید خفیفہ کو الف سے بدل دینا، نون تاکیدخفیفہ کا ابدال دو جگہ پر ہوا ہے۔
۵۔ مقطوع و موصول:… یعنی کلمات کو کاٹ کر یا ملا کر لکھنا جیسے ’ أن لا‘
۶۔ دو قراء ات والے کلمہ کو ایک قراء ت کے مطابق لکھنا۔ جیسے ﴿لَتَّخَذْتَ عَلَیْہِ أَجَرًا﴾ (الکہف:۷۷)کتب تجوید میں مقطوع و موصول اور ابدال کے قاعدے کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے اور ان سے متعلقہ کلمات کو شمار بھی کردیا گیا ہے۔
علم قراء ات کے طالب علم کے لیے رسم القرآن کی معرفت کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ روایات پڑھتے وقت، خصوصاً امالات اور ’باب وقف ہمزہ و ہشام علی الھمز‘ میں اس کی أشد ضرورت پڑتی ہے۔
بعض اہل علم نے نقل کیا ہے کہ علم قراء ات کے طالب علم کے لیے استعاذہ، اس کی