کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 63
کیا قاری قرآن کے لیے یہ مناسب طریقہ کار ہے کہ وہ ﴿وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ وَلِاَبَوَیْہِ﴾ (النسا:۱۱) پر یا ﴿وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَکَلَہُ﴾ (یوسف:۱۷)پر یا ﴿فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ وَاَخِیْ ہٰرُوْنُ﴾ (القصص:۳۳،۳۴ ) پر وقف کرے، جو وقف قبیح کے قبیل سے ہے۔ اس سے معنیٰ مکمل طور پر بگڑ جاتا ہے اور سننے والے کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں؟
کیا قاری قرآن کے لیے یہ درست طرزِ عمل ہے کہ اسے ﴿اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَآ﴾ (الاحقاف:۴) اور ﴿امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلیٰٓ اٰلِہَتِکُمْ﴾ (ص:۶) سے ابتداء کرنے کی کیفیت کا علم ہی نہ ہو کہ یہاں سے ابتداء کیسے کرنی ہے۔
اسی لیے متعدد ایمہ قراء ت نے اجازہ دینے والے مقری پر یہ شرط عاید کی ہے کہ وہ کسی بھی طالب علم کو اس وقت تک سند اجازہ نہ دے جب تک وہ علم وقف و ابتداء کی معرفت حاصل نہ کرلے۔‘‘[1]
متقدمین و متاخرین اہل علم نے اس فن پر بے شمار کتب تصنیف کی ہیں۔ جن میں سے بعض کتب مختصر اور بعض مطول ہیں۔ امام ابن طحان سمعانی رحمہ اللہ (ت بعد۵۶۰ھ) کی کتاب ’نِظَامُ الْأدَائِ فِی الْوَقْفِ وَالِْابْتَدَائِ‘ ایک مختصر اور جامع کتاب ہے۔ جبکہ امام عمانی رحمہ اللہ (ت بعد۵۰۰ھ) کی کتاب ’اَلْمُرْشِدْ‘ مطول اور تفصیلی ہے۔
اس فن پر لکھی گئی متاخر کتب میں سے سب سے بہترین کتاب امام احمد بن محمد بن عبدالکریم الاشمونی رحمہ اللہ (ت بعد۱۰۹۹ھ) کی ’مَنَارُ الْھُدٰی فِیْ بَیَانِ الْوَقْفِ وَالْاِبْتَدَائِ‘ ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اکثر سابقہ کتب کا خلاصہ کردیا۔
مصاحف میں لگائی گئی چھ علامات وقف، وقف و ابتداء کے مواقع کی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔ معلم کو چاہیے کہ وہ خود بھی ان علامات کا اہتمام کرے اور دوران حفظ و قراء ت اس کا اپنے تلامذہ سے بھی اہتمام کروائے۔
[1] النشر:۱-۲۲۵.