کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 62
حاصل کیا کرتے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(( لَقَدْ عِشْنَا بُرْھَۃً مِن دَھْرِنَا، وَإِنَّ أَحَدَنَا لَیُؤْتِی الْاِیْمَانَ قَبْلَ الْقُرْآنِ وَتَنْزِلُ السُّوْرَۃُ عَلَی مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم فَنَتَعَلَّمُ حَلَالَھَا وَحَرَامَھَا، وَمَا یَنْبَغِیْ أَنْ یُوْقَفَ عِنْدَہُ مِنْھَا۔))[1]
’’ہم سنہرے دور کی پیداوار ہیں، ہم میں سے ہر شخص قرآن مجید سے پہلے اپنے ایمان کی خبر لیتا تھا۔ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی سورۃ نازل ہوتی تو ہم اس کے حلال و حرام اور اوقاف کو سیکھ لیا کرتے تھے۔‘‘
امام نحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((فَھَذَا الْحَدِیْثُ یَدُلُّ عَلَی أَنَّھُمْ کَانُوْا یَتَعَلَّمُوْنَ التَّمَامَ کَمَا یَتَعَلَّمُوْنَ الْقُرْآن، وَ قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ: ’’ لَقَدْ عِشْنَا بُرْھَۃً مِن دَھْرِنَا‘‘ یَدُلُّ عَلَی أَنَّ ذَلِکَ إِجْمَاعٌ مِنَ الصَّحَابَۃِ۔))[2]
’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر سے مترشح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام قراء ات کے ساتھ ساتھ اوقاف بھی سیکھتے تھے۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس طرزِ عمل پر تمام صحابہ کا اجماع تھا۔ ‘‘
علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ایمہ اسلاف سے صحیح بلکہ تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ علم الوقف والابتداء کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ جیسا کہ معروف تابعی امام اہل مدینہ سیدنا ابوجعفر یزید بن قعقاع رحمہ اللہ ، ان کے شاگرد امام نافع بن ابونعیم رحمہ اللہ ، امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ ، امام یعقوب الحضرمی رحمہ اللہ اور امام عاصم بن ابی النجود رحمہ اللہ وغیرہ کی کلام اور کتب میں موجود ان کی نصوص سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘[3]
[1] مستدرک حاکم:۱-۳۵.
[2] القطع والائتناف:۸۷.
[3] النشر:۱-۲۲۵.