کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 61
وَفَھْمُ اللُّغَاتِ وَالْاِعْرَابَا
وَعِلْمُ الْخَطَأِ وَالصَّوَابَا
وَکُلُّ مَنْ لَّا یَعْرِفُ اْلِاعْرَابَا
فَرُبَمَا قَدْ یَتْرُکُ الصَّوَابَا
وَرُبَمَا قَدْ قَوَّلَ اْلأَئِمَّہْ
مَا لَا یَجُوْزُ وَ یَنَاَلُ الْإِثْمَہْ[1]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ اپنے عمال کو لکھتے تھے:
((لَا یُقْرِیئُ الْقُرْآنَ اِلَّا مَنْ یَعْرِفُ الْاِعْرَابَ۔))[2]
’’قرآن مجید صرف وہی پڑھائے جو اعراب جانتا ہو۔‘‘
معلم قرآن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس علم میں پختگی حاصل کرے، اپنے طلبا کو اس کی مشق کروائے اور ان کے قلوب و اذہان میں اس کو راسخ کرے۔
جب ہم ایمہ قراء ات کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ علم قرا ء ات اور علم عربیت دونوں کے ماہر تھے، ان کے تراجم و سوانح طبقات القراء اور طبقات النحاۃ واللغویین دونوں طرح کی کتب میں موجود ہیں۔ انہوں نے علم قراء ات اور علم لغت دونوں علوم پر کتب تصنیف فرمائی ہیں۔
۴۔علم الوقف والابتداء کی معرفت:
قرآن مجید کے قاری اور معلم کے لیے علم الوقف والابتداء کی معرفت انتہائی ضروری ہے، تاکہ وہ یہ جان سکے کہ وقف کہاں کرنا ہے او رکیسے کرنا ہے۔ ابتداء کہاں سے کرنی ہے اور کیسے کرنی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سلف نے اس علم کا خصوصی اہتمام فرمایا ہے۔ صحابہ کرام بھی اس کی تعلیم
[1] الاجوزۃ:۱۶۸.
[2] المصباح الزاہرللشھرزوری: ۱۵۲۲.