کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 60
امام ابن مجاہد رحمہ اللہ عربی نہ جاننے والے حامل قرآن کو غیر معتبر اور غیر مستند قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ مشابہ حرکات، عربی سے ناواقفیت اور معانی سے جہالت کے سبب وہ اپنا حفظ جلد بھول جاتا ہے۔[1]
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((اَلْقُرْآنُ أَصْلُ الْعِلْمِ، فَمَنْ حَفِظَہُ قَبْلَ بُلُوْغِہِ ثُمَّ فَرِغَ إِلَی مَا یَسْتعِیْنُ بِہِ عَلَی فَھْمِہِ مِن لِّسَانِ الْعَرَبِ، کَانَ ذَلِکَ لَہُ عَوْنًا کَبِیْرًا عَلَی مُرَادِہِ مِنْہُ۔))[2]
’’قرآن مجید علم کی بنیاد ہے۔ جو طالب علم بلوغت سے پہلے اسے حفظ کرلیتا ہے، پھر کلام عرب سے اس کے فہم کی جانب توجہ مرکوز کرتا ہے تو اس کا حفظ قرآن اس کے لیے فہم حاصل کرنے میں بہت بڑا معاون اور مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘‘
امام ابوالحسن علی بن عبدالغنی الحصری رحمہ اللہ (ت ۴۸۸ھ) فرماتے ہیں:
وَأَحْسِنْ کَلَامَ الْعَرَبِ اِنْ کُنْتَ مُقْرِئًا
وَإِلاَّ فَتُخْطِی حِیْنَ تَقْرَأْ اَوْ تُقْرِی
لَقَدْ یَدَّعِیْ عِلْمَ الْقِرَائَ ۃِ مَعْشَرُ
وَبَاعُھُمْ فِی النَّحْوِأَ قْصَرُ مِنْ شِبْرِ
فَاِنْ قِیْلَ: مَا اِعْرَابُ ھٰذَا وَ وَزْنُہٗ
رَاَیْتَ طَوِیْلَ الْبَاعِ یَقْصِرُ عَنْ فَتْرِ[3]
امام ابوعمرو الدانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] السبعۃ فی القراء ات:۴۵.
[2] جامع بیان العلم وفضلہ:۲-۱۱۲۰.
[3] شرح العقیدۃ الحصریۃ لابن عظیمۃ الاشبیلی ۲: ۲۶.