کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 59
علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’شیخ سے اسانید کا سماع ہر طالب علم پر ضروری ہے، وہ شیخ کی زبان سے اس کے الفاظ میں اسانید کا سماع کرے ورنہ اس کی أسانید منقطع طریق سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘[1]
اسی طرح پڑھی ہوئی روایت یا قراء ات کی نوع، مقدار اور کیفیت کی تعیین کیے بغیر مبہم انداز میں اجازہ (سرٹیفکیٹ) جاری کردینا تدلیس کے ضمن میں آتا ہے۔ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ اس کو تدلیس فاحش شمار کرتے ہیں، جس سے متعدد مفاسد لازم آتے ہیں۔ [2]
اجازہ او رسند دینے والے مقری کے لیے ضروری ہے کہ وہ پڑھی گئی روایت یا روایات کا تعین کرے اور اس امر کی وضاحت کرے کہ اس طالب علم نے کس کتاب، کس طریق سے کتنا پڑھا ہے۔ مکمل قرآن مجید ختم کیا ہے یا اس کا کچھ حصہ پڑھا ہے۔ تاکہ حافظ اور غیر حافظ، متقن اور غیر متقن میں تمیز ہو جائے۔[3]
۳۔ لغت عرب کی معرفت:
لغت عرب کی معرفت کو دین کے شعایر میں شمار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ لغت ہی نطق صحیح، بیان واضح او رفہم سلیم کا ذریعہ ہے۔ متعدد آثار لغت عرب سیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، فرماتے ہیں:
((تَعَلَّمُوْا الْعَرَبِیَّۃَ، وَتَفَقَّھُوْا فِی الْعَرَبِیَّۃِ۔))[4]
’’عربی سیکھو، اور عربی میں فہم پیدا کرو۔‘‘
علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ ،امام البقاعی رحمہ اللہ ، امام قسطلانی رحمہ اللہ ، اور امام صفاقسی رحمہ اللہ جیسے ایمہ قراء ات نے لغت عرب کو علم قراء ات کی بنیادی وسایل و ذرایع میں شمار کیا ہے۔
[1] منجد المقرئین:۷۶.
[2] منجد المقرئین:۵۴.
[3] النشر:۱-۶.
[4] جامع بیان العلم وفضلہ:۲-۱۱۳۲،۱۱۳۳.