کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 58
(( اَ لْاِسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ، وَلَو لَا الْاِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَائَ مَا شَائَ۔))[1]
’’اسناد دین کا حصہ ہیں، اگر اسناد نہ ہوتیں توہر شخص جو چاہتا کہہ دیتا۔‘‘
قراء ات قرآنیہ کے طالب علم کو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل، دی جانے والی سند اس کی تعلیمی اہلیت اور تدریس و تعلیم کی صلاحیت پر شہادت (گواہی) دیتی ہے۔ نیز اس کے لیے تزکیہ، اور تحمل قرآن و نقل قرآن کے اس مبارک سلسلہ میں شامل ہونے کی توثیق سمجھی جاتی ہے۔ یعنی سند یافتہ طالب علم اب پڑھی ہوئی متعدد روایت یا کسی ایک روایت کو نقل کرنے میں عادل اور ضابط کی حیثیت رکھتا ہے، چونکہ قرآن مجید براہِ راست مصحف سے حاصل نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا تلقی او راسناد کے اہتمام کی ضرورت مزید شدید ہوجاتی ہے او ر اہل علم و مخلص طلبا کا یہی طرزِ عمل رہا ہے۔
لطیفہ:
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ایک عجیب و غریب قصہ نقل کیا ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے ابن رومی رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا: ایک شخص سفر پر گیا اور کسی بستی میں ٹھہر گیا، اس بستی کے خطیب نے اس کی ضیافت کا اہتمام کیا، خطیب اس آدمی سے کہنے لگا: میں ایک عرصہ سے ان لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہوں۔ قرآن مجید کے بعض مواقع کے بارے میں مجھے شبہ پیدا ہوگیا ہے کہ درست کیا ہے؟اس آدمی نے کہا: پوچھیے! خطیب کہنے لگا: ان مواقع میں سے ایک سورۃ ’ الحمد للّٰہ‘میں ہے: ’ایاک نعبد وإیاک …… کے بعد ’تسعین‘ ہے یا ’سبعین‘ ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مجھ پر مشکل ہوگیا ہے۔ لیکن احتیاطاً میں اسے ’تسعین‘ پڑھتا ہوں۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے مقری کے لیے اسانید اور رجال کے احوال سے واقف ہونا ضروری امر ہے۔ قراء کرام کی اسناد میں واقع ہونے والی متعدد غلطیاں اس فن سے غفلت برتنے کے سبب ہے۔[2]
[1] رواہ مسلم فی مقدمۃ صحیحہ:۱-۱۵.
[2] منجد المقرئین:۵۷۔ لطایف الاشارات:۱-۱۷۳ غایۃ النھایۃ:۲-۴۰۰.