کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 55
((أن المد المنفصل یجوز قصرہ من طریق طیبۃ)) [1]
’’مد منفصل میں بہ طریق طیبۃ (یعنی اہل مدینہ) قصر جایز ہے۔‘‘
اس مؤلف نے جہالت کے سبب یہاں طیبۃ سے مراد مدینہ منورہ لیا ہے۔ جو مدینۃ النبی صلي الله عليه وسلم کا ایک نام ہے۔ حالانکہ یہاں طیبۃ سے مراد علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ کی منظوم کتاب ’طیبۃ النشر‘ ہے، جس میں انہوں نے اپنی معروف زمانہ کتاب ’النشر فی القراء ات العشر‘ کو نظم کردیا ہے۔
ہمیں قراء ات قرآنیہ کی عملی و تطبیقی جہت میں علم التجوید کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، جو صحابہ کرام کے عہد زریں سے لے کر آج تک نسل در نسل منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں۔ متعدد صحابہ کرام و تابعین عظام سے ثابت ہے کہ:
((الْقِرَائَ ۃُ سُنَّۃٌ مُتَّبَعَۃٌ یَأْخُذُھَا الْآخَرُ عَنِ الأَوَّلِ۔))[2]
’’قراء ات سنت متبعہ ہے، جسے بعد والے پہلوں سے اخذ کرتے ہیں۔ ‘‘
اس خصوصی اہتمام کے مظاہر میں سے ایک سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل ہے۔ انہوں نے جب مختلف شہروں کی طرف مصاحف روانہ کیے تو ہر مصحف کے ساتھ ایک ایک متقن ضابط مقری بھی روانہ کردیا، جو عامۃ الناس کو اس مصحف کے موافق اپنی قراء ت یا روایت پڑھاتے تھے۔ کیونکہ قراء ات کیفیات و صفات کا نام ہے جو تلقی اور مشافہت کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ درج ذیل دو امور کو ملحوظ رکھنے سے علم تجوید میں پختگی پیدا ہوسکتی ہے۔
۱۔ طالب علم کو چاہیے کہ وہ علم قراء ت کسی متقن، ضابط اور اس فن کے ماہر شیخ سے حاصل کرے اور ایک طویل عرصہ تک اس کو لازم پکڑے رکھے۔
امام مکی بن ابی طالب القیسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] ہدایۃ القاری الی تجوید کلام الباری:۳۰۳.
[2] طرق الأثر فی السبعۃ لابن مجاہد:۴۹،۵۰.