کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 54
’’ہر علم کے بارے میں اس کے اہل (یعنی متخصص) افراد سے سوال کیا جاتا ہے۔‘‘
انسان جب کسی ایسے علم پر گفتگو کرتا ہے، جس کی حدود و مصطلحات کو نہیں جانتا تو عجیب و غریب قسم کے لطیفے انجام دیتا ہے۔
کسی بھی علم میں تخصص کرلینے کے بعد مدرس کی شخصیت میں اعتماد پیدا ہو جاتا ہے اور وہ مطلوبہ تعلیمی نتایج کے حصول میں فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔ جبکہ کمزور تعلیمی صلاحیت کا حامل مدرس اپنے تلامذہ کے سامنے احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنے طلبا پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔
یہاں ہم ان اہم علوم کا تذکرہ کریں گے، جو قرآن مجید کے مدرس کی قابلیت و اہلیت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں اور اسے اس مطلوبہ مقام و مرتبہ پر فایز کردیتے ہیں، جس کا حالات تقاضا کرتے ہیں۔
۱۔علم تجوید میں پختگی:
یہ علم تلاوت کلام ربانی میں حکم شرعی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور’اگر میری تعبیر صحیح ہے ‘ علم قراء ات کی بنیاد و اساس سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اکثر أصول وقواعد قراء کرام کے ہاں مشترک ہیں۔ چنانچہ اس علم کی علمی نظری اور عملی تطبیقی دونوں اعتبار سے پختگی معلم کے لیے از حد ضروری ہے، ورنہ مدرس نہ تو اس فن کی اصطلاحات کی شرح کرسکتا ہے جیسے ہمس، جہر، شدت اور رخوت وغیرہ اور نہ ہی بعض کلمات قرآنیہ کا درست تلفظ کرسکتا ہے جیسے ﴿ لَا تَأْمَنَّا﴾ (یوسف:۱۱) میں اختلاس اور ادغام مع الاشمام کی دو وجوہ یا لفظ ﴿ئَ أَعْجَمِیٌّ﴾ (فصلت:۴۴) میں تسہیل کرنا۔
بسا اوقات تعریفات و مصطلحات سے عدم واقفیت کے سبب شاذ مفہوم بعید تفسیر اور بڑے عجیب و غریب قسم کے لطایف سامنے آتے ہیں۔ جیسا کہ ایک مؤلف أحکام التجوید میں مد منفصل کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ: