کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 52
۵۔علم حدیث وسنن:
قاری قرآن اور مقری کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس کا سینہ حدیث نبوی کے نور سے خالی ہو، اور اسے کچھ بھی احادیث یاد نہ ہوں۔ ہر مدرس کو کچھ نہ کچھ احادیث ضرور یاد ہونی چاہئیں۔ خصوصاً سنن کی بعض چھوٹی کتب، جیسے امام عبدالغنی المقدسی رحمہ اللہ (ت۶۰۰ھ) کی کتاب ’عمدۃ الأحکام‘ اور امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب ’ریاض الصالحین‘ کو یاد کیا جاسکتا ہے۔
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(( اَلْقُرْآنُ أَصْلُ الْعِلْمِ، فَمَنْ حَفِظَہُ قَبْلَ بُلُوْغِہِ ثُمَّ فَرِغَ إِلَی مَا یَسْتعِیْنُ بِہِ عَلَی فَھْمِہِ مِن لِّسَانَ الْعَرَبِ، کَانَ ذَلِکَ لَہُ عَوْنًا کَبِیْرًا عَلَی مُرَادِہِ مِنْہُ ، ثُمَّ یَنْظُرُ فِی السُنَنِ المَأثُوْرَۃِ الثَابِتَۃِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فَبِھَا یَصِلُ الطَّالِبُ إِلَی مُرَادِ اللّٰہِ عَزَوَجَلَّ فِی کِتَابِہِ، وَھِیَ تَفْتَحُ لَہُ أَحْکَامَ الْقُرْآنِ فَتْحًا۔))[1]
’’قرآن مجید علم کی بنیاد ہے، جو شخص بلوغت سے پہلے اسے حفظ کرلیتا ہے، پھر کلام عرب سے اس کے فہم کی جانب توجہ مرکوز کرتا ہے تو اس کا حفظ قرآن اس کے لیے فہم حاصل کرنے میں بہت بڑا مددگار اور معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے بعد حدیث نبوی کا مقام ہے۔ جو قرآن مجید میں وارد مراد الٰہی تک پہنچاتی ہے اور مقری کے لیے أحکام القرآن کا دروازہ کھول دیتی ہے کیونکہ سنت نبوی قرآن مجید کی سب سے بڑی شرح اور تفسیر ہے۔‘‘
۶۔ رقایق اور فضایل اعمال کا علم:
یہ باب بڑا وسیع، شاندار اور رقیق پردہ ہے، جو انسان پر اس کے عیوب و نقایص منکشف کردیتا ہے۔ اس کی بیماریوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کرتا ہے اور اس کے لیے خیر و بھلائی،
[1] جامع بیان العلم وفضلہ:۲-۱۱۳۰.