کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 51
کرے۔ امام ابوعمرو الدانی رحمہ اللہ معلم قراء ت کی شروط کے ضمن میں رقمطراز ہیں:
((وجمع التفسیر والأحکاما۔))[1]
’’اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ أحکام القرآن پر مبنی کتب کا مطالعہ کرے، کیونکہ ایسی کتب فقہ اور تفسیر دونوں علوم پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ‘‘
۴۔علم الناسخ والمنسوخ:
قاری قرآن کے لیے علم الناسخ والمنسوخ کو جاننا بھی ضروری ہے۔
امام ابوعمرو الدانی رحمہ اللہ مقری کی شروط کے ضمن میں رقمطراز ہیں:
وَشَاھَدَ الْأَکَابِرَ الشُّیُوْخَ
وَدَوَّنَ النَّاسِخَ وَالْمَنْسُوْخَ
’’اکابر مشائخ کی مجالس میں حاضر ہوتا ہو اور ناسخ ومنسوخ کے علم کو مدون کرنے والا ہو۔‘‘[2]
اس شرط میں امام جعبری رحمہ اللہ نے بھی امام دانی رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے۔[3]
جبکہ امام ابن الجزری رحمہ اللہ نے کسی گہری بنیاد پر اس کی تردید کی ہے وہ فرماتے ہیں:
((وَلَا یُشْتَرَطُ أَنْ یَّعْلَمَ النَّاسِخَ وَالْمَنْسُوْخَ، کَمَا اشْتَرَطہُ الإِمَام الجَعْبَرِیُّ۔)) [4]
’’مقری قرآن کے لیے علم الناسخ والمنسوخ کو جاننا شرط نہیں ہے۔ ‘‘
درست بات یہی ہے کہ مقری یا معلم قرآن کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ علم الناسخ والمنسوخ کا عالم ہو۔ یہ شرط مفسر اور مجتہد کے لیے ہے۔ [5]
[1] الأرجوزۃ المنبھۃ:۱۶۸.
[2] الأرجوزۃ المنبھۃ:۱۶۸.
[3] منجد المقرئین:۵۲.
[4] منجد المقرئین:۵۲.
[5] مقدمہ جامع التفسیر للراغب:۹۵۔ البحرالمحیط للزرکشی: ۶-۲۰۳.