کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 50
عمارت میں اینٹوں کی سی ہے۔ جب اینٹیں دستیاب ہوں تو آپ جیسے چاہیں عمارت تعمیر کرلیں۔ یہ اسلوب نہ صرف علم قرآن میں بلکہ تمام علوم شرعیہ میں مفید و نافع ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ کلام عرب کا مغز اور جوہر ہیں۔ فقہا و حکما اپنے أحکام اورحکم میں انہی الفاظ پر اعتماد کرتے ہیں۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مقری اور معلم قرآن کے لیے یہ شرط لگائی گئی ہے کہ وہ تفسیر اور غریب القرآن کا عالم ہو، تاکہ قرآن فہمی میں اسے کوئی مشکل پیش نہ آئے اور قرآنی الفاظ سن کر ان کے معانی سے عدم واقفیت کی بنا پر احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ [1]
تعلیم قرآن کے حوالے سے جب ہم صحابہ کرام، اور تابعین عظام کے منہج کا جایزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ دس آیات سیکھ لیتے تھے تو اس وقت تک اگلی دس آیات نہ سیکھتے تھے جب تک پچھلی دس آیات میں موجود أحکام کو نہ جان لیتے اور ان پر عمل نہ کرلیتے تھے۔ انہوں نے قرآن مجید اور علم و عمل اکٹھا ہی سیکھا تھا۔ [2]
امام ابو عمرو الدانی رحمہ اللہ مقری شیخ کی شرایط بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
وَجَمْعَ التَّفْسِیْرَ وَالْأَحْکَامَا
وَلَازَمَ الْحَذَّاقَ وَالْأَعْلَامَا
۳۔علم الفقہ:
علم فقہ اُن اساسی علوم میں سے ہے جسے سیکھنے کی معلم قرآن کو أشد ضرورت ہے، تاکہ وہ اپنے دین امور مثلاً طہارت و عبادات وغیرہ کی اصلاح کرسکے اور اپنے دنیوی امور کو صحیح نہج پر چلا سکے۔ [3]
قرآن مجید کی تعلیم دینے والے ہر معلم و مدرس کو چاہیے کہ وہ أحکام فقہ کو خصوصی اہتمام سے سیکھے، فقہ کی مختصر و جامع کتب کو پڑھے اور کسی متفق شیخ سے باقاعدہ اس کی تعلیم حاصل
[1] غیث النفع:۲۱۔ منجد المقرئین:۵۲.
[2] مستدرک حاکم:۱-۵۵۷.
[3] منجد المقرئین: ۵۰۔ غیث النفع: ۲۱.