کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 49
﴿وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُہَآ اِلَّا الْعَالِمُوْنَ﴾ (العنکبوت:۴۳)
’’لوگوں کے لیے ہم یہ مثالیں بیان کرتے ہیں، انہیں اہل علم کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔‘‘[1]
اہل علم نے ایسے شخص کی مذمت کی ہے جو قرآن مجید کا کوئی لفظ یاد کرلیتا ہے اور اس کا معنی و مفہوم اور تفسیر نہیں جانتا۔[2]
امام راغب الاصفہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((أَوَّلُ مَا یَحْتَاجُ أَنْ یُشْتَغَلَ بِہِ مِن عُلُوْمِ الْقُرْآنِ الْعُلُوْمُ اللَفْظِیَّۃُ، وَمِنَ الْعُلُوْمِ اللَفْظِیَّۃِ تَحْقِیْقُ الْألْفَاظِ الْمُفْرَدَۃِ، فَتَحْصِیْلُ مَعَانِیْ مُفْرَدَاتِ أَلْفَاظِ الْقُرْآنِِ فِی کَوْنِہِ مِن أَوَائِلِ الْمُعَاوِنِ لِمَن یُّرِیْدُ أَنْ یُدْرِکَ مَعَانِیْہِ، کَتَحْصِیْلِ اللَبِنِ فِی کَوْنِہِ مِنْ أَوَّلِ الْمُعَاوِنِ فِی بِنَائِ مَا یُرِیْدُ أَن یَّبْنِیَہُ، وَلَیْسَ ذَلِکَ نَافِعًا فِی عِلْمِ الْقُرْآنِ فَقَطْ، بَلْ ھُوَ نَافِعُ فِی کُلِّ عِلْمِ مِنْ عُلُوْمِ الشَّرْعِ، فَأَلْفَاظُ الْقُرْآنِ ھِیَ لُبُّ کَلَامِ الْعَرَبِ وَزُبْدَتُہُ وَوَاسِطَتُہُ وَکَرَائِمُہُ، وَعَلَیْھَا اِعْتِمَادُ الْفُقَھَائِ وَالْحُکَمَائِ فِی أَحْکَامِھِمْ وَحِکْمِھِمْ۔))[3]
’’علوم قرآن میں سے سب سے پہلے لفظی علوم کو سیکھنا چاہیے او رمفرد الفاظ کے معانی کی معرفت حاصل کرنی چاہیے۔ کیونکہ مفرد الفاظ کے معانی پوری آیت کے مفہوم کو واضح کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ مفرد الفاظ کی مثال
[1] فضایل القرآن لابی عبید:۴۲.
[2] الرعایۃ لمکی بن ابی طالب:۸۶.
[3] مفردات الفاظ القرآن:۵۴۔۵۵.