کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 45
کے ساتھ محبت کرے، طلبا کے ساتھ نرمی سے پیش آئے، اور ان کی اعانت پر کمر بستہ رہے۔‘‘
مذکورہ خصال محمودہ او رصفات جمیلہ کے بیان سے مترشح ہوتا ہے کہ حسن اخلاق کا مفہوم بڑا وسیع اور متنوع الجوانب ہے۔ حسن اخلاق معلم اور متعلم کے درمیان اجتماعی روابط کے قیام کو تقویت پہنچاتا ہے۔ جبکہ برا اخلاق ان روابط کو منقطع کردیتا ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ایک اثر منقول ہے، فرماتے ہیں:
((یَکُوْنُ فِی الرَّجُلِ عَشْرُ خَصْلَاتٍ تِسْعَۃٌ مِّنْھَا أَخْلَاقٌ حَسَنَۃٌ، وَخُلُقٌ سَیِّیئٌ، فَیَغْلِبُ السَّیِّئُ التِسْعَۃَ الْحَسَنَۃَ۔))[1]
’’آدمی میں دس خصلتیں ہوں، اور ان میں سے نو خصلتیں اخلاق حسنہ پر مبنی ہوں جبکہ ایک خصلت خلق سیئہ پر مشتمل ہو۔ تو وہ ایک بری خصلت ان نو اچھی خصلتوں پر غالب آجاتی ہے۔‘‘
میں نے حلقات تحفیظ القرآن میں پڑھنے والے بعض طلبا سے سنا ہے کہ وہ اپنے استاد کو اپنا بدترین دشمن تصور کرتے ہیں اور اسے غصے اور نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کا مدرس ان کے ساتھ برے اخلاق سے پیش آتا ہے اور ان سے بے جا سختی اور شدت روا رکھتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں !
برا اخلاق مدرس اور طلبا کے درمیان نفرت اور کراہت کا بیچ بو دیتا ہے۔اور سب سے مضبوط حائل پیدا کرتا ہے جو ان کے اجتماعی روابط کے سلسلے کو منقطع کردیتا ہے اور مدرس معاشرے میں کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کرسکتا۔
[1] مھارات التدریس فی الحلقات القرآنیۃ:۷۲.