کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 37
معلمین اورقراء کرام کے اس نامناسب طرزِ عمل پر تنقید کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
((وَھٰذِہِ مُصِیْبَۃٌ یُبْتَلَی بِھَا بَعْضُ الْمُعَلِّمِیْنَ الْجَاھِلِیْنَ، وَھِیَ دَلَالَۃٌ بَیِّنَۃٌ مِن صَاحِبِھَا عَلَی سُوْئِ نِیَّتِہِ، وَفَسَادِ طَوِیَّتِہِ، بَلْ ھِیَ حُجَّۃٌ قَاطِعَۃٌ عَلَی عَدْمِ إِرَادَتِہِ بِتَعْلِیْمِہِ وَجْہَ اللّٰہِ تَعَالَی الْکَرِیْمِ؛ فَإِنَّہُ لَوْ أَرَادَ اللّٰہَ تَعَالَی بِتَعْلِیْمِہِ لَمَا کَرِہَ ذَلِکَ۔))[1]
’’یہ ایک عجیب مصیبت ہے، جس میں بعض جاہل معلمین گرفتار ہیں، جو ان کی بدنیتی پر دلالت کرتی ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تعلیم کا مقصد رضا الٰہی کا حصول نہیں، بلکہ دنیوی جاہ و جلال ہے۔ کیونکہ اگر وہ اللہ کی رضا کے لیے تعلیم دیتے تو اپنے تلامذہ کو دیگر مشایخ کے پاس جاکر استفادہ کرنے سے کبھی منع نہ کرتے۔ بلکہ خندہ پیشانی کے ساتھ نہ صرف اس کی اجازت دیتے بلکہ اس پر تلامذہ کو ترغیب بھی دیتے۔ ‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((وَدِدتُّ أَنَّ الْخَلْقَ تَعَلَّمُوْا ھَذَا الْعِلْمَ عَلَی أَنْ لَا یُنْسَبَ إِلَیَّ حَرْفٌ مِّنْہُ۔))[2]
’’میری خواہش ہے کہ مخلوق نے مجھ سے جو یہ علم حاصل کیا ہے، وہ اس میں سے ایک حرف بھی میری طرف منسوب نہ کریں۔‘‘
مذکورہ بالا کلام سے خلوص نیت کی اہمیت وضرورت کا بہ خوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ تعلیم و تربیت کے میدان میں ا س کے بغیر مطلوبہ تعلیمی نتایج کبھی حاصل نہیں ہوسکتے۔ استاد اگر خلوص نیت سے تعلیم دے تو معمولی حالات میں بھی بہترین نتایج حاصل کیے جاسکتے ہیں
[1] البیان فی آداب حملۃ القرآن:۲۸۔ المجموع شرح المھذب:۱-۶۴.
[2] البیان فی آداب حملۃ القرآن:۲۸۔ المجموع شرح المھذب: ۱-۶۴.