کتاب: معلم قرآن کی تعمیر شخصیت اور تربیت کے چند راہنما اصول - صفحہ 22
حاصل کیا جاسکتا ہے؟ [1]
یہ بحث معلم قرآن کے کردار و گفتار اور اس کی ان ذاتی، علمی اور تربیتی صفات پر مبنی ہے، جن سے مزین ہوکر وہ اپنی شخصیت کی تعمیر و تکمیل کرسکتا ہے، اور تعلیم و تربیت کے میدان میں کار ہاے نمایاں سرانجام دے سکتا ہے۔
اس بحث میں بیان کی گئی صفات عالیہ سے ہر معلم کو مزین ہونا چاہیے، اور تمام حلقات تعلیم میں ان کا نفاذ ہونا چاہیے۔ بلکہ ہر وہ شخص جو اس معزز مشن اور منہاج سے منسلک ہے اسے چاہیے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر ان صفات کے فروغ کے لیے کوشش جاری رکھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ معلم تعلیم و تربیت اور درس و تدریس کے میدان میں مرکز و محور کی حیثیت رکھتا ہے۔ مضبوط مناہج، دستیاب وسایل اور بہترین ظروف کے باوجود معلم کے کردار سے مستغنی نہیں ہوا جاسکتا۔ بسا اوقات بہترین تعلیمی وسایل ناتجربہ کار معلم کے ہاتھوں ناکارہ اور برباد ہوجاتے ہیں اور اچھے سے اچھا نصاب بھی اپنے مطلوبہ نتایج پورے نہیں دے پاتا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اچھے تعلیمی نتایج کا حصول صرف اور صرف معلم کی شخصیت اور اس کے متحرک اور مثالی کردار پر منحصر ہے۔
خلفا، عمایدین اور رہبرانِ قوم اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے ہمیشہ سے کامیاب معلمین کے انتخاب کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں۔ پوری دنیا میں آج بھی لوگ اپنے بچوں کو ان مدارس میں داخل کروانے کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں کامیاب اور ماہر اساتذہ کرام موجود ہوتے
[1]
مَنْ یَأْخُذُ الْعِلْمَ عَنْ شَیْخٍ مُشَافَہَۃً
یَکُنْ عَنِ الزَّیْغِ وَالتَّصْحِیْفِ فِیْ حَرَمٍ
وَمَنْ کَانَ آخِذًا لِلْعِلْمِ مِنْ صُحُفٍ
فَعِلْمُہٗ عَنْ أَہْلِ الْعِلْمِ کَالْعَدَمِ
’’جو شخص شیوخ سے مشافہۃ علم حاصل کرتا ہے وہ انحراف حق او ر(تغیر تبدل)کی غلطی سے محفوظ رہتا ہے اور جو کوئی علم کتابوں سے حاصل کرنے والا ہو اس کا علم اہل علم کے ہاں نہ ہونے کے مترادف ہے۔‘‘.