کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 65
حدیث کے ان خدام کی قدر و منزلت کا اندازہ آپ امام عبداللہ بن مبارک کے ’’الرقہ‘‘ میں ورود سعود پر ان کے استقبال میں حاضر ہونے والوں کا جمِ غفیر دیکھ کر خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی کے تبصرہ سے کر سکتے ہیں، جس نے کہا تھا: ’’ھذا واللّٰه الملک لا ملک ہارون الذي لا یجمع الناس الا بشرط و أعوان‘‘ اللہ کی قسم یہ بادشاہ ہیں، ہارون بادشاہ نہیں، جس کے لیے لوگوں کو سپاہیوں اور کارندوں کے ذریعے جمع کیا جاتا ہے۔[1]
امام احمد کے تلمیذِ رشید امام ابو بکر احمد بن محمد المروزی، جنھوں نے امام احمد کی وفات پر ان کی آنکھیں بند کیں اور غسل دیا تھا۔ خطیب بغدادی نے ذکر کیا ہے کہ جب وہ ’’الغزو‘‘ روانہ ہوئے تو ان کو الوداع کہنے والوں کا یہ عالم تھا کہ وہ ’’سامرا‘‘ تک ساتھ چلتے گئے۔ سامرا بغداد سے تیس فرسخ کی مسافت پر ہے، انھیں کہا گیا کہ واپس پلٹ جاؤ، مگر وہ واپس نہ ہوئے۔ سامرا تک ساتھ جانے والوں کا جو اندازہ لگایا گیا وہ پچاس ہزار تھا۔[2]
امام بخاری رحمہ اللہ بھی جب بخارا تشریف لائے تو منظر دیدنی تھا، لکھا ہے کہ بخارا سے ایک فرسخ تک لوگوں نے استقبالی خیمے لگائے۔ سارا شہر اُمنڈ آیا، حتی کہ کوئی مرد شہر میں نہ رہا اور لوگوں نے ان پر درہم و دینار اور شکر نچھاور کی۔[3]
اور جب نیشاپور تشریف لے گئے تو صرف گھوڑوں پر سوار استقبال کرنے والے چار ہزار تھے۔ خچروں، گدھوں پر سوار اور پیادہ لوگ ان کے علاوہ تھے۔[4]
[1] تاریخ بغداد (۱۰/۱۵۶).
[2] تاریخ بغداد (۴/۴۲۴)، التذکرۃ، الانساب.
[3] السیر (۲/۵۵)، ھدی الساري۔.
[4] السیر (۱۲/۴۳۷).