کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 59
میں پسند نہیں کرتا کہ جس کو میں ہاتھ لگاؤں پھر اسے نہ خریدوں۔ چنانچہ مہنگے داموں پانچ سو درہم میں اسی کو خرید لیا۔[1] اندازہ کیجیے ورع، صبر و تحمل اور بردباری کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو گی؟ ایک بار امام بخاری رحمہ اللہ بخارا کی جانب ایک رباط، یعنی سرائے تعمیر کروا رہے تھے۔ ان کے تعاون کے لیے بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ خود بھی ان کے ساتھ اینٹیں اٹھاتے ہیں، ان سے کہا گیا کہ لوگ کافی ہیں، آپ اینٹیں اٹھانے کی زحمت کیوں برداشت کرتے ہیں؟ امام صاحب نے فرمایا: یہی میرا کام تو مجھے فائدہ دے گا۔ جو لوگ کام کر رہے تھے ان کے کھانے کے لیے ایک گائے ذبح کی گئی۔ سالن تیار ہو گیا تو تین درہم یا اس سے کچھ کم کی روٹیاں خرید کر لائی گئیں۔ ایک درہم کی تقریباً ۵ مُد روٹیاں ملتی تھیں۔ یوں کل پندرہ مُد قریباً بارہ کلو روٹیاں ملیں۔ کھانے والوں کی تعداد ایک سو سے زیادہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کھانے میں اتنی برکت ڈال دی کہ سبھی حضرات کھا چکے، پھر بھی کچھ روٹیاں بچ گئیں۔[2] امام بخاری رحمہ اللہ کی تواضع، انکساری اور دل کی صفائی کا اندازہ کیجیے کہ ایک روز امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک نابینا شخص، جس کی کنیت ابو معشر تھی، سے فرمایا: ’’اِجْعَلْنِيْ فِيْ حِلٍّ‘‘ ’’مجھے معاف کر دو۔‘‘ ابو معشر نے کہا: کیا معاف کروں؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے ایک دن حدیث بیان کی تھی، میں نے تمھیں دیکھا: تعجب سے تم اپنا سر اور ہاتھ ہلا رہے تھے تو میں یہ دیکھ کر مسکرا دیا (کہ دیکھو خوشی سے یہ بھی سر ہلا رہا ہے، پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو نابینا ہے، میرے مسکرانے کو دیکھ نہیں
[1] السیر (۱۲/۴۴۷). [2] السیر (۱۲/۴۵۰) ومقدمۃ (ص: ۴۸۱).