کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 58
اس واقعے سے امام بخاری رحمہ اللہ کا اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور اپنے احباب سے حسنِ سلوک سے پیش آنے، حتی کہ صحابہ کے مابین مواخات کے تناظر میں معاملہ کرنے کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔
اسی نوعیت کا یہ واقعہ بھی دیکھیے جسے عبداللہ بن محمد الصارفی یوں بیان کرتے ہیں کہ میں امام بخاری رحمہ اللہ کے گھر میں ان کے ہمراہ بیٹھا تھا۔ ان کی لونڈی کمرے میں داخل ہوئی تو کسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ کے سامنے پڑی سیاہی کی دوات گر پڑی۔ امام بخاری نے فرمایا: تو کیسے چلتی ہے؟ اس نے جواب دیا: جب راستہ ہی نہ ہو تو میں کیسے چلوں؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’إِذْھَبِيْ فَقَدْ أَعْتَقْتُکِ‘‘ ’’جاؤ میں نے تمھیں آزاد کر دیا۔‘‘ حاضرینِ مجلس میں سے کسی نے کہا کہ اس نے تو آپ کو غصہ دلایا (مگر آپ نے اسے تنبیہ کرنے کے بجائے آزاد کر دیا؟) امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: اگرچہ اس نے مجھے غصہ دلایا ہے مگر میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر میں نے اپنے آپ کو راضی کر لیا ہے۔[1]
لونڈی ہی کے بارے میں یہ واقعہ بھی کتنا سبق آموز ہے جسے ان کے وراق نے بیان کیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لونڈی خریدنا چاہتے تھے، انھوں نے مجھے اپنے ساتھ لیا۔ غلاموں کا تاجر خوب صورت لونڈیاں لایا تھا۔ ان میں ایک بدصورت چھوٹی چھوٹی آنکھوں والی اور فربہ جسم والی لونڈی تھی۔ امام صاحب نے اسے دیکھا اس کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگایا اور کہا: یہ میرے لیے خرید لو۔ میں نے عرض کی: یہ تو بدصورت ہے، کوئی اچھی لونڈی نہیں۔ جنھیں ہم نے دیکھا، ان میں سے کوئی خوب صورت اسی قیمت پر ہمیں مل جائے گی تو انھوں نے فرمایا: یہی خرید لو، میں نے اس کی ٹھوڑی کو چھوا ہے،
[1] السیر (۱۲/۴۵۲).