کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 57
بن ابی حاتم ہی کا بیان ہے کہ میں نے ایک گھر نو سو بیس درہم کا لیا تو انھوں نے فرمایا: مجھے آپ سے ایک کام ہے، کرو گے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ فرمایا: نوح بن ابی شداد صراف کے پاس جاؤ، اس سے ایک ہزار درہم لے آؤ اور لاکر مجھے دو۔ چنانچہ میں ایک ہزار درہم لے آیا تو انھوں نے وہ مجھے دے دیے کہ انھیں گھر کی خریداری میں خرچ کر لو۔ چنانچہ میں نے وہ رقم شکریے کے ساتھ لے لی۔ کچھ وقت بعد میں نے عرض کی: میری ایک ضرورت ہے، مگر میں آپ سے اس کے ذکر کی جرأت نہیں کرتا۔ انھوں نے سمجھا کہ میں کچھ زیادہ مال چاہتا ہوں تو فرمایا: فکر نہ کرو، بتلاؤ کیا ضرورت ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ قیامت کے روز تمھارے حوالے سے میں پکڑا نہ جاؤں۔ میں نے کہا: وہ کیسے: انھوں نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین مواخات قائم کی تھی، پھر اس کے بارے میں انھوں نے حضرت سعد اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے بھائی چارہ کی حدیث بیان فرمائی۔ وراق کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میرا سارا مال جو آپ ہی نے مجھے دیا تھا، آپ کے نام ہبہ کرتا ہوں، میرا مقصد باہمی مناصفت تھی، یعنی آدھا آدھا اور یہ اس لیے کہ انھوں نے فرمایا تھا: میری لونڈی اور عورت ہے اور تم نوجوان ہو، مجھ پر واجب ہے کہ میں تمھارے ساتھ مال وغیرہ میں نصفا نصفی (برابر تقسیم) کروں۔ اس کی مزید تفصیل بیان کرنے کے بعد الوراق بالآخر فرماتے ہیں:
’’إِنَّکَ قَدْ جَمَعْتَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ فَأَيُّ رَجُلٍ یَبَرُّ خَادِمَہُ بِمِثْلِ مَا تَبَرُّنِيْ‘‘[1]
’’آپ نے دنیا و آخرت کی خیر جمع کر لی ہے، کون ہے جو اپنے خادم سے ایسی نیکی کرتا ہے جو آپ نے میرے ساتھ کی۔‘‘
[1] السیر (۱۲/۴۵۱، ۴۵۲).