کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 56
’’مُنْذُ عَلِمْتُ أَنَّ الْغِیْبَۃَ حَرَامٌ‘‘
’’جب سے مجھے پتا چلا ہے کہ غیبت حرام ہے، میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔‘‘
غیبت کے بارے میں بالکل یہی قول امام بخاری رحمہ اللہ اپنے استاد امام ابو نعیم ضحاک بن مخلد کا ذکر کرتے ہیں۔[1]
امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں ان کے وراق کا بیان ہے کہ وہ بہت کم کھاتے تھے، طالب علموں پر بڑا احسان کرتے اور افراط کی حد تک سخی تھے۔ خود ان کا اپنا بیان ہے کہ میری پانچ سو درہم ماہانہ آمدنی ہے جسے میں طالب علموں پر خرچ کر دیتا ہوں۔
امام بخاری رحمہ اللہ ایک بار بیمار ہو گئے، ان کا قارورہ طبیبوں کو دکھایا گیا تو انھوں نے کہا یہ قارورہ تو عیسائی پادریوں سے ملتا جلتا ہے، کیوں کہ وہ کھانے میں سالن استعمال نہیں کرتے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے معالجین کی تصدیق کی اور فرمایا: میں نے چالیس سال سے سالن نہیں کھایا۔ ساتھیوں نے حکیموں سے مرض کا علاج پوچھا تو انھوں نے کہا: ان کا علاج سالن کھانے میں ہے۔[2]
بعض ایام ایسے بھی گزرتے کہ کوئی روٹی نہیں کھائی، صرف دو یا تین باداموں پر گزارا کیا۔ طالب علموں پر اکثر خرچ کرتے، ضرورت مند طالب علم دیکھتے تو چپکے سے کم و بیش بیس، تیس درہم اسے تھما دیتے، ایک طالب علم کو یوں ہی تین سو درہم دیے۔ اس نے دعائیہ کلمات کہنے چاہے تو امام صاحب نے فرمایا: اور حدیث پڑھو، یہ اس لیے کہ کسی کو پتا نہ چلے اور بات آئی گئی ہو جائے۔ آپ کے خادم اور وراق محمد
[1] التھذیب للمزي وغیرہ.
[2] مقدمۃ فتح الباري.