کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 55
وَقَالَ: لَا أُحِبُّ أَنْ أَنْقُضَ نِیَّتِيْ‘‘[1] ’’میں نے گذشتہ رات نیت کی تھی کہ یہ مال پہلے گاہکوں کو دے دوں گا، چنانچہ انہی کو مال دیا اور فرمایا: میں پسند نہیں کرتا کہ اپنی نیت کو بدلوں۔‘‘ غور فرمائیے! دنیوی لین دین میں بھی نیت کی پاسداری کا کتنا احساس ہے، کیوں نہ ہو! انھوں نے تو ’’الجامع الصحیح‘‘ کا آغاز ہی (( إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ )) سے کیا ہے۔ غیبت جو ہمارے معاشرے کا ایک بڑا روگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسلمان کی غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ عموماً ’’لحم خوری‘‘ کے چسکے نے ہمیں اس بد عادت کا بھی عادی بنا دیا ہے کہ مگر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ہیں کہ فرماتے ہیں: ’’أَرْجُوْا أَنْ أَلْقَی اللّٰہَ وَلَا یُحَاسِبُنِيْ أَنِّيْ اغْتَبْتُ أَحَداً‘‘ ’’میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ملوں گا تو وہ میرا حساب نہیں لے گا کہ میں نے کسی کی غیبت کی ہو۔‘‘ انھوں نے یہ بھی فرمایا: ’’مَا اغْتَبْتُ أَحَداً قَطُّ مُنْذُ عَلِمْتُ أَنَّ الْغِیْبَۃَ تَضُرُّ أَھْلَھَا‘‘[2] ’’جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ غیبت، غیبت کرنے والے ہی کو نقصان دیتی ہے، میں نے کبھی کسی کی غیبت نہیں کی۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہی قول مقدمہ فتح الباری (ص: ۴۸۰) میں بھی ذکر کیا ہے، مگر وہاں الفاظ ہیں:
[1] مقدمۃ فتح الباري۔ [2] السیر (۱۲/۴۴۱).