کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 54
مسجد میں بدبو دار چیز کھا کر آنا تو کجا، امام صاحب کچا لہسن، بدبو دار سبزی جسے ’’کراث‘‘ کہا جاتا تھا، وہ بھی نہیں کھاتے تھے، اس لیے کہ ساتھیوں کو ان کی بدبو ناگوار نہ گزرے۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔فداہ أرواحنا وأجسادنا وأموالنا۔ بھی بو دار چیز کھانے سے بالعموم گریز کرتے تھے۔ اسی کا احیاء اور پاسداری امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے وراق کا بیان ہے کہ امام صاحب نے فرمایا: ’’مَا أَرَدْتُّ أَنْ أَتَکَلَّمَ بِکَلَامٍ فِیْہِ ذِکْرُ الدُّنْیَا إِلَّا بَدَأْتُ بِحَمْدِ اللّٰہِ وَالثَّنَائِ عَلَیْہِ‘‘ ’’جب بھی میں دنیوی معاملے میں کسی بات کا ارادہ کرتا ہوں تو اس کی ابتدا اللہ کی حمد و ثنا سے کرتا ہوں۔‘‘ اس سے ان کے ذکر و فکر کا اندازہ کیجیے جو بالکل ﴿ رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ﴾ [النور: ۳۷] کا مصداق ہے کہ ان کی دنیوی معاملات کی مجلس بھی اللہ کی حمد و ثنا سے خالی نہ تھی۔ ان کے اخلاصِ نیت کا اندازہ کیجیے کہ ایک مرتبہ ان کے ہاں کچھ مال آیا۔ خریدار حاضر ہوئے، انھوں نے مال خریدنا چاہا اور امام صاحب کو پانچ ہزار درہم نفع دینے کی پیش کش کی۔ امام صاحب نے فرمایا: رات ہے، آپ تشریف لے جائیں۔ صبح کچھ اور لوگ حاضر ہوئے تو انھوں نے دس ہزار درہم نفع دینے کی پیش کش کی، مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’إِنِّيْ نَوَیْتُ الْبَارِحَۃَ أَنْ أَدْفَعَھَا إِلَی الْأَوَّلِیْنَ فَدَفَعَھَا إِلَیْھِمْ
[1] السیر (۱۲/۴۴۵).