کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 53
’’میں نے دو بار اپنے رب سے دعا کی تو اس نے فوراً قبول کر لی، اب میرا دل نہیں چاہتا کہ مزید کوئی دعا مانگوں جس سے میری نیکیوں میں کمی آئے یا دنیا ہی میں اس کا بدلہ مل جائے۔‘‘
دعا عبادت ہے اور طلبِ دعا اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے۔ یہاں امام صاحب کی مراد غالباً دنیا سے متعلقہ امور کی دعا ہے تو گویا انھوں نے مخصوص دنیا طلبی کی دعا کو پسند نہیں کیا اور یہ ’’ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ‘‘ کے منافی نہیں۔ یا یہ کہ وہ دعا دنیا میں قبول ہو جائے اور آخرت میں اس کا کوئی صلہ نہ ملے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جو دعا بظاہر دنیا میں قبول نہیں ہوتی اس کا اجر قیامت کے دن کے لیے محفوظ ہو جاتا ہے۔
محمد بن عباس الفِربْری کا بیان ہے کہ میں امام بخاری کے ہمراہ فِرَبر کی مسجد میں تھا۔ میں نے ایک معمولی تنکا ان کی ڈاڑھی میں سے نکالا اور چاہا کہ اسے مسجد میں پھینک دوں، مگر انھوں نے فرمایا: ’’اسے مسجد سے باہر پھینک کر آؤ۔‘‘[1]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی نوعیت کا ایک واقعہ محمد بن منصور سے نقل کیا ہے کہ ہم امام بخاری رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب نے ان کی ڈاڑھی سے تنکا نکال کر مسجد میں پھینک دیا۔ محمد بن منصور کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس تنکے اور لوگوں کی طرف التفات فرماتے ہیں، چنانچہ جب لوگوں کو غافل پایا تو امام صاحب نے تنکا اٹھا کر اپنی آستین میں رکھ لیا۔ جب مسجد سے باہر تشریف لے گئے تب اسے مسجد سے باہر پھینک دیا۔ گویا انھوں نے سمجھا کہ جو چیز ڈاڑھی میں نہیں رہ سکتی وہ مسجد میں کیسے رہ سکتی ہے؟[2]
[1] السیر (۱۲/۴۴۵).
[2] مقدمۃ (ص: ۴۸۱).