کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 52
کا یوں اہتمام کرتے کہ دن کو روزانہ ایک بار مکمل قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے اور تراویح کے علاوہ سحری کے وقت تین راتوں میں قرآن مجید ختم کرتے۔ اور نمازِ تراویح میں اپنے ساتھیوں کو ایک دفعہ قرآن مجید سناتے تھے اور ہر رکعت میں بیس آیات تلاوت فرماتے تھے۔ یوں گویا پورے رمضان میں اکتالیس مرتبہ قرآن مجید ختم کرتے۔
نماز میں خشوع و خضوع کا یہ عالم تھا کہ امام صاحب کے تلمیذ محمد بن ابی حاتم الوراق کا بیان ہے: ان کے رفقا نے انھیں باغ میں دعوت دی، وہاں ظہر کی نماز کے بعد سنن سے فارغ ہوئے تو قمیص مبارک اٹھا کر اپنے ایک ساتھی سے کہا: دیکھو قمیص میں کیا ہے؟ چنانچہ قمیص دیکھنے پر بھڑ نکلی جس نے ۱۶ یا ۱۷ بار امام صاحب کو ڈسا تھا اور جسم متورم تھا۔ ایک ساتھی نے کہا: جب اس نے پہلی بار ڈسا تھا، آپ نماز توڑ دیتے، انھوں نے فرمایا:
’’کُنْتُ فِيْ سُوْرَۃٍ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُتِمَّھَا‘‘[1]
’’میں ایک سورت پڑھ رہا تھا، میں نے چاہا کہ اسے مکمل کر لوں۔‘‘
خطیب بغدادی وغیرہ نے بالکل اسی نوعیت کا واقعہ کسی رات کی نماز کے بارے میں بھی ذکر کیا ہے، (ایضاً)۔ نماز سے محبت ہی کا نتیجہ تھا کہ ’’الجامع الصحیح‘‘ میں حدیث نقل کرنے سے پہلے دو رکعت نفل ادا کرتے تھے۔
امام بخاری مستجاب الدعوات تھے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے تو فوراً قبول ہو جاتی، محمد بن ابی حاتم الوراق کا بیان ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’دَعَوْتُ رَبِّيْ مَرَّتَیْنِ فَاسْتَجَابَ لِيْ یَعْنِيْ فِيْ الْحَالِ فَلَا أُحِبُّ أَنْ أَدْعُوَ بَعْدُ فَلَعَلَّہُ یُنْقَصُ حَسَنَاتِيْ‘‘[2]
[1] تاریخ بغداد (۲/۱۲،۱۳).
[2] مقدمۃ (ص: ۴۸۰)، السیر (۱۲/۴۴۴).