کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 50
کا نام بھی جابجا لیا ہے۔ کیا وہ بھی ان معترضین کے نزدیک مجتہد ہیں؟ بلکہ امام عبداللہ بن مبارک کو تو بعض حضرات حنفی باور کروانے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ کے اجتہاد و تفقہ پر شرذمہ قلیلہ ( چند لوگوں) کے اس قسم کے اعتراضات بیمار ذہن کی علامت ہیں۔ ان کے اس مقام و مرتبہ کا اعتراف ان کے شیوخ نے، معاصرین نے، تلامذہ نے اور بعد کے ہر طبقہ کے اہلِ علم نے کیا ہے۔ اس پر کسی حاسد کے ناک بھوں چڑھانے سے ان کی شان کم نہیں، بلکہ مزید نکھر کر سامنے آتی ہے۔ امام بخاری ایک محدث، جرح و تعدیل کے امام، تاریخ و رجال کے پیشوا، معرفتِ علل کے شہسوار اور فقہ الحدیث میں مقتدا ہی نہیں، تفسیر میں بھی بلند مقام کے حامل تھے۔ ’’الجامع الصحیح‘‘ میں کتاب التفسیر کے علاوہ ’’التفسیر الکبیر‘‘ کے نام سے بھی ان کی ایک مستقل تصنیف کا ذکر ملتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی نام سے اس کتاب کا ذکر مقدمہ فتح الباری (ص: ۴۹۲) میں کیا ہے۔ بروکلمان نے تاریخ الادب العربی (۳/۱۷۹) میں اس کے ایک نسخے کا پیرس کی لائبریری میں ہونے کا ذکر کیا ہے اور اس کے ایک حصے کا جزائر میں ہونے کا پتا بھی دیا ہے۔ امام صاحب کی اسی تفسیری خدمت کی بنا پر علامہ محمد بن علی الداوودی المتوفی ۹۴۵ھ نے امام بخاری کا تذکرہ ’’طبقات المفسرین‘‘ (ص: ۳۷۰) میں کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی ان خدماتِ علمیہ سے یہ بات نصف النہار کی طرح روشن نظر آتی ہے کہ انھوں نے اپنے پیچھے جس قدر تصانیف چھوڑی ہیں، بعد میں آنے والے سبھی ان کے خوشہ چین اور نیاز مند ہیں اور یہی ان کے کمال کا اعتراف ہے۔ رحمہ اللّٰه رحمۃ واسعاً۔