کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 48
الْعُقَلَائُ فِیْھَا‘‘[1] ’’تراجم قائم کرنے میں امام بخاری غایات پر پہنچنے میں گوئے سبقت لیے ہوئے ہیں۔ عقلاء ان کے تراجم پر حیرت زدہ ہیں۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابطال حیل کے لیے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’طاعون اگر کسی جگہ پھیلا ہوا ہو تو وہاں مت جاؤ، اگر تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔‘‘ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تفقہ کی داد دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ھٰذَا مِنْ دِقَّۃِ فِقِّھِہٖ فَإِنَّہُ إِذَا کَانَ قَدْ نَھٰی صلي اللّٰه عليه وسلم عَنِ الْفِرَارِ مِنْ قَدَرِ اللّٰہِ تَعَالیٰ إِذَا نَزَلَ بِالْعَبْدِ رِضًا بِقَضَائِ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَتَسْلِیْماً لِحُکْمِہٖ، فَکَیْفَ بِالْفِرَارِ مِنْ أَمْرِہٖ وَدِیْنِہٖ إِذَا نَزَلَ بِالْعَبْدِ؟‘‘[2] ’’یہ استدلال امام بخاری رحمہ اللہ کی دقتِ فہم کا نتیجہ ہے، کیوں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی قضا و قدر آجانے کے بعد وہاں سے فرار سے روکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہنے اور اس کے حکم کو تسلیم کرنے کا حکم دیا ہے تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور اس کے احکامات جب بندے پر لاگو ہو جائیں تو اس سے فرار کی کیا گنجایش ہے؟‘‘ اس لیے اگر کچھ کم عقلوں کو ’’الجامع الصحیح‘‘ کے تراجم اور ان میں مذکور احادیث کے مابین کوئی توافق نظر نہیں آتا تو انھیں اہلِ عقل و فکر سے رجوع کرنا چاہیے نہ کہ الٹا امام بخاری رحمہ اللہ کو ہدفِ تنقید بنایا جائے۔
[1] العرف الشذي (ص: ۲۹). [2] إغاثۃ اللفھان (۱/۳۹۱).