کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 47
امام بخاری صاحب الجامع کو بخارا سے اسی بنا پر نکالا گیا تھا (کہ وہ ایمان کو مخلوق کہتے تھے)۔‘‘ اندازہ کیجیے بات کہاں سے کہاں پہنچی۔ ہمارے نزدیک تو جس طرح علامہ سرخسی کا بیان کیا ہوا سبب بے بنیاد اور امام بخاری پر اتہام ہے اسی طرح علامہ کردری کا یہ بیان بھی کذب و افترا پر مبنی ہے۔ دراصل یہ حضرات نقلِ روایت میں قابلِ اعتبار نہیں۔ سنی سنائی بات کو بیان کرنے اور اس پر حکم صادر کرنے میں سخت متساہل ثابت ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے۔ بات طول پکڑ گئی، مقصد یہ تھا کہ امام بخاری فقیہ اور مجتہد ہیں مگر بعض طبائع ان کے اس مرتبے پر بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اس قسم کی بہتان طرازیوں سے ان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بعض اپنا علمی توفق ظاہر کرنے کے لیے یہ بھی اگلتے ہیں کہ ’’الجامع الصحیح‘‘ کے متعدد تراجمِ ابواب کی احادیث کے ساتھ کوئی موافقت نہیں، حالانکہ تراجمِ ابواب کی اہمیت اور ان میں وارد احادیث کی باب سے مناسبت پر اہلِ علم نے مستقل کتابیں لکھی ہیں اور شارحینِ ’’الجامع الصحیح‘‘ نے بھی اس کی عقدہ کشائی کی ہے۔ ماضی قریب میں ایک حنفی مولوی عمر کریم نے اس حوالے سے اپنی شیخی بگھاری تو مولانا ابو القاسم بنارسی نے ’’الخزی العظیم‘‘ اور ’’حل مشکلات البخاری‘‘ میں اس کا جواب دیا۔ جو اب ’’دفاعِ صحیح بخاری‘‘ کے نام سے ہمارے فاضل دوست مولانا حافظ شاہد رفیق حفظہ اللہ کی تعلیقات سے مزین ہو کر زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکا ہے۔ کورِ ذوق کو امام بخاری رحمہ اللہ کی رفعتوں نکتہ شناسیوں سے کیا علاقہ ہے؟! علامہ محمد انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں: ’’وَالْبُخَارِيُّ سَابِقُ الْغَایَاتِ فِيْ وَضْعِ التَّرَاجِمِ، فَإِنَّہُ قَدْ تَّحَیَّرَتِ