کتاب: مقالات ارشاد الحق اثری جلد5 - صفحہ 44
واقعہ ہے اس کی سند کے اہتمام کا ان کے ہاں دور دور تک تصور نہیں۔ مولانا عبدالحی لکھنوی نے اس واقعے کے بارے میں شیخ احمد بن حفص ابو حفص الکبیر کے ترجمہ میں کہا ہے:
’’ھِيَ حَکَایَۃٌ مَشْھُوْرَۃٌ فِيْ کُتُبِ أَصْحَابِنَا ذَکَرَھَا أَیْضًا صَاحِبُ الْعِنَایَۃِ وَغَیْرُہُ مِنْ شُرَاحِ الْھِدَایَۃِ ولَکِنِّيْ اَسْتَبْعِدُ وُقُوْعَھَا بِالنِّسْبَۃِ إِلیٰ جَلَالَۃِ قَدْرِ الْبُخَارِيِّ وَدِقَّۃِ فَھْمِہِ وَسِعَۃِ نَظْرِہِ وَغَوْرِ فِکْرِہِ مِمَّا لَا یَخْفٰی عَلیٰ مَنِ انْتَفَعَ بِصَحِیْحِہِ وَعلیٰ تَقْدِیْرِ صِحَّتِھَا فَالْبَشَرُ مُخْطِیئٌ‘‘[1]
’’یہ قصہ ہمارے حنفی حضرات کی کتابوں میں مشہور ہے، اسے صاحبِ عنایہ اور دیگر شارحینِ ہدایہ نے بھی ذکر کیا ہے۔ مگر میرے نزدیک اس کا وقوع امام بخاری رحمہ اللہ کی جلالتِ قدر، باریک بینی، وسعتِ نظر اور نکتہ شناسی کی بنا پر بہت بعید ہے، جیسا کہ صحیح بخاری سے بہرہ مند ہونے والے پر مخفی نہیں۔ بالفرض اسے صحیح کہا جائے تو وہ انسان تھے، انسان سے خطا ہو جاتی ہے۔‘‘
اس قصے کا بطلان نصف النہار کی طرح واضح ہے۔ ابو حفص کبیر ۲۱۷ھ میں فوت ہوئے، اس کے بعد امام بخاری آخری عمر میں بخارا تشریف لائے۔ کسی نے ان کے آنے پر تعرض نہیں کیا۔ امام بخاری اور امام محمد بن یحییٰ ذہلی کا نیشاپور میں اختلاف ۲۵۰ھ میں ہوا۔ اسی سال وہ رے تشریف لے گئے۔ اور اس کے بعد بخارا تشریف لے گئے۔ امیر بخارا خالد بن احمد[2] اور حریث بن ابی الورقاء کی ملی بھگت سے اس
[1] الفوائد البھیئۃ (ص: ۱۸).
[2] اس نے خواہش ظاہر کی تھی کہ امام صاحب میرے گھر پر میرے بیٹوں کو الجامع اور التاریخ پڑھائیں۔ امام صاحب نے اس کا انکار کر دیا تو اس نے حریث وغیرہ سے اس بارے میں معاونت طلب کی تھی۔